سنن نسائی ۔ جلد سوم ۔ خرید و فروخت کے مسائل و احکام ۔ حدیث 948

غلام فروخت ہو اور خریدار اس کا مال لینے کی شرط مقرر کرے

راوی: محمد بن علاء , ابومعاویہ , الاعمش , سالم بن ابی جعد , جابر بن عبداللہ

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ کُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ وَکُنْتُ عَلَی جَمَلٍ فَقَالَ مَا لَکَ فِي آخِرِ النَّاسِ قُلْتُ أَعْيَا بَعِيرِي فَأَخَذَ بِذَنَبِهِ ثُمَّ زَجَرَهُ فَإِنْ کُنْتُ إِنَّمَا أَنَا فِي أَوَّلِ النَّاسِ يُهِمُّنِي رَأْسُهُ فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ الْمَدِينَةِ قَالَ مَا فَعَلَ الْجَمَلُ بِعْنِيهِ قُلْتُ لَا بَلْ هُوَ لَکَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا بَلْ بِعْنِيهِ قُلْتُ لَا بَلْ هُوَ لَکَ قَالَ لَا بَلْ بِعْنِيهِ قَدْ أَخَذْتُهُ بِوُقِيَّةٍ ارْکَبْهُ فَإِذَا قَدِمْتَ الْمَدِينَةَ فَأْتِنَا بِهِ فَلَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ جِئْتُهُ بِهِ فَقَالَ لِبِلَالٍ يَا بِلَالُ زِنْ لَهُ أُوقِيَّةً وَزِدْهُ قِيرَاطًا قُلْتُ هَذَا شَيْئٌ زَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُفَارِقْنِي فَجَعَلْتُهُ فِي کِيسٍ فَلَمْ يَزَلْ عِنْدِي حَتَّی جَائَ أَهْلُ الشَّامِ يَوْمَ الْحَرَّةِ فَأَخَذُوا مِنَّا مَا أَخَذُوا

محمد بن علاء، ابومعاویہ، اعمش، سالم بن ابی جعد، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھا اور ایک اونٹ پر سوار تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا وجہ ہے کہ سب لوگوں کے آخر میں رہتے ہو یعنی تمام لوگوں کے پیچھے رہتے ہو۔ اس پر میں نے عرض کیا میرا اونٹ تھک چکا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی دم پکڑ لی اور اس کو ڈانٹ دیا۔ پھر وہ (اونٹ) ایسا ہوگیا کہ میں لوگوں کے آگے تھا۔ جس وقت ہم لوگ مدینہ منورہ کے نزدیک پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اونٹ کو کیا ہوا؟ اس کو میرے ہاتھ فروخت کر دو۔ میں نے کہا نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اونٹ ویسے ہی لے لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں تم اس کو فروخت کر دو اور میں نے اس کو ایک اوقیہ (چالیس درہم) کے عوض خرید لیا تو اس پر سوار ہو کر جس وقت مدینہ منورہ میں پہنچو تو تم اس کو ہمارے پاس لے کر آنا۔ چنانچہ جس وقت میں مدینہ منورہ میں آیا تو اونٹ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال سے فرمایا اے بلال! ایک اوقیہ چاندی تم ان کو وزن کر کے دے دو اور زیادہ دے دو۔ میں نے کہا کہ یہ وہ چیز ہے جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ کو زیادہ عطاء فرمائی ہے وہ کبھی مجھ سے الگ نہ ہو۔ میں نے اس کو ایک تھیلی میں رکھا وہ ہمیشہ میرے پاس رہا۔ یہاں تک کہ حرہ کے دن ملک شام کے لوگ آئے وہ لوگ ہم لوگ سے لے گئے جو لے گئے۔

It was narrated that Jabir bin ‘Abdullah said: “We were traveling with the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم and I was riding a camel. The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said to me: ‘Will you sell it to me for such and such, may Allah forgive you?’ I said, ‘Yes, it is yours, Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.’ He said: ‘Will you sell it to me for such and such, may Allah forgive you?’ I said: ‘Yes, it is yours, Prophet of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.’ He said: ‘Will you sell it to me for such and such, may Allah forgive you?’ I said: ‘Yes, it is yours.” (One of the narrators) Abu Nadrah said: “This became a phrase that was used by the Muslims: ‘Do such and such, may Allah forgive you.” (Sahih)

یہ حدیث شیئر کریں