غلام فروخت ہو اور خریدار اس کا مال لینے کی شرط مقرر کرے
راوی: محمد بن یحیی بن عبداللہ , محمد بن عیسیٰ بن طباع , ابوعوانة , مغیرہ , شعبی , جابر
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَی بْنِ الطَّبَّاعِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ مُغِيرَةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرٍ قَالَ غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی نَاضِحٍ لَنَا ثُمَّ ذَکَرْتُ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ ثُمَّ ذَکَرَ کَلَامًا مَعْنَاهُ فَأُزْحِفَ الْجَمَلُ فَزَجَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْتَشَطَ حَتَّی کَانَ أَمَامَ الْجَيْشِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا جَابِرُ مَا أَرَی جَمَلَکَ إِلَّا قَدْ انْتَشَطَ قُلْتُ بِبَرَکَتِکَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ بِعْنِيهِ وَلَکَ ظَهْرُهُ حَتَّی تَقْدَمَ فَبِعْتُهُ وَکَانَتْ لِي إِلَيْهِ حَاجَةٌ شَدِيدَةٌ وَلَکِنِّي اسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ فَلَمَّا قَضَيْنَا غَزَاتَنَا وَدَنَوْنَا اسْتَأْذَنْتُهُ بِالتَّعْجِيلِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي حَدِيثُ عَهْدٍ بِعُرْسٍ قَالَ أَبِکْرًا تَزَوَّجْتَ أَمْ ثَيِّبًا قُلْتُ بَلْ ثَيِّبًا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو أُصِيبَ وَتَرَکَ جَوَارِيَ أَبْکَارًا فَکَرِهْتُ أَنْ آتِيَهُنَّ بِمِثْلِهِنَّ فَتَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا تُعَلِّمُهُنَّ وَتُؤَدِّبُهُنَّ فَأَذِنَ لِي وَقَالَ لِي ائْتِ أَهْلَکَ عِشَائً فَلَمَّا قَدِمْتُ أَخْبَرْتُ خَالِي بِبَيْعِي الْجَمَلَ فَلَامَنِي فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَوْتُ بِالْجَمَلِ فَأَعْطَانِي ثَمَنَ الْجَمَلِ وَالْجَمَلَ وَسَهْمًا مَعَ النَّاسِ
محمد بن یحیی بن عبد اللہ، محمد بن عیسیٰ بن طباع، ابوعوانة، مغیرہ، شعبی، جابر سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پانی بھرنے والے اونٹ پر جہاد کیا پھر ایک لمبی حدیث بیان کی۔پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اونٹ کو ڈانٹا وہ اونٹ تیز ہوگیا یہاں تک کہ تمام لشکر سے آگے ہوگیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے جابر! میں سمجھ رہا ہوں کہ تمہارا اونٹ تیز ہوگیا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے میرا اونٹ تیز ہوگیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم اس کو میرے ہاتھ فروخت کر دو اور تم اس پر سوار ہوجاؤ (یعنی اس پر سوار ہو جا) مدینہ منورہ تک پہنچنے تک میں نے اس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ اگرچہ مجھ کو اونٹ کی سخت ضرورت تھی لیکن مجھ کو شرم محسوس ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہیں خریدنے کے واسطے اور میں اس کو نہ دوں) جس وقت جہاد سے فارغ ہوکر ہم لوگ مدینہ منورہ کے نزدیک پہنچ گئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگے جانے کی اجازت چاہی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے نکاح کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا باکرہ لڑکی سے کیا ہے یا غیر کنواری سے میں نے عرض کیا غیر کنواری یعنی ثیبہ سے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے والد عبداللہ بن عمرو قتل کر دیئے گئے تھے اور وہ کنواری لڑکیاں چھوڑ گئے تھے۔ تو مجھ کو برا معلوم ہوا کہ ان کے پاس میں ایک کنواری لڑکی لاؤں۔ اس وجہ سے میں نے ثیبہ سے نکاح کر لیا کہ وہ ان کو تعلیم دے اور ادب سکھلائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت عطاء فرمائی اور فرمایا اپنی اہلیہ کے پاس رات میں جائیں۔ میں جب گیا تو میں نے اپنے ماموں سے اونٹ فروخت کرنے کی حالت بیان کی۔ انہوں نے مجھ پر ملامت کی جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو میں صبح کے وقت اونٹ لے کر حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹ کی قیمت ادا فرمائی اور اونٹ بھی واپس فرما دیا اور ایک حصہ تمام لوگوں کے برابر عطاء فرمایا (مال غنیمت میں سے)۔
It was narrated that Jàbir said: “The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم caught up with me when I was riding a bad camel of ours, and I said: ‘We have a bad camel, more’s the pity!’ The Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: ‘Will you sell it to me, Jabir?’ I said, ‘No, it is yours, Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.’ He said: ‘Allah, forgive him; Allah, have mercy on him. I will buy it for such and such, and I will lend it to you to ride until (we reach) Al-Madinah.’ When I reached Al-Madinah, I prepared it, and brought it to him,
and he said: ‘Bilal, give him its price.’ When I turned to leave, he called me back, and I was afraid that he would give it back, but he said: ‘It is yours.” (Sahih)
