حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ہنسنے کے بیان میں
راوی:
حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ قَالَ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ قَالَ حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم إِنِّي لأَعْلَمُ أَوَّلَ رَجُلٍ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ وَآخَرَ رَجُلٍ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ يُؤْتَی بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُقَالُ اعْرِضُوا عَلَيْهِ صِغَارَ ذُنُوبِهِ وَيُخَبَّأُ عَنْهُ کِبَارُهَا فَيُقَالُ لَهُ عَمِلْتَ يَوْمَ کَذَا وَکَذَا کَذَا وَهُوَ مُقِرٌّ لا يُنْکِرُ وَهُوَ مُشْفِقٌ مِنْ کِبَارِهَا فَيُقَالُ أَعْطُوهُ مَکَانَ کُلِّ سَيِّئَةٍ عَمِلَهَا حَسَنَةً فَيَقُولُ إِنَّ لِي ذُنُوبًا مَا أَرَاهَا هَاهُنَا قَالَ أَبُو ذَرٍّ فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وسلم ضَحِکَ حَتَّی بَدَتْ نَوَاجِذُهُ
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اس شخص کو خوب جانتا ہوں جو سب سے اول جنت میں داخل ہوگا، اور اس سے بھی خوب واقف ہوں جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جائے گا ۔ قیامت کے دن ایک آدمی دربار الٰہی میں حاضر کیا جائے گا اس کے لئے یہ حکم ہوگا کہ اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ اس پر پیش کئے جائیں کہ تو نے فلاں دن فلاں گناہ کئے ہیں تو وہ اقرار کرے گا ۔ اس لئے کہ انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی اور اپنے دل میں نہایت ہی خوفزدہ ہوگا کہ ابھی صغائر ہی کا نمبر ہے ۔ کبائر پر دیکھیں کیا گزرے؟ کہ اس دوران میں یہ حکم ہوگا کہ اس شخص کے ہر گناہ کے بدلے ایک ایک نیکی دی جائے وہ شخص یہ حکم سنتے ہی خود بولے گا کہ میرے تو ابھی بہت سے گناہ باقی ہیں جو یہاں نظر نہیں آتے ۔ ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اس کا مقولہ نقل فرما کر ہنسے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندان مبارک ظاہر ہوئے ۔ ہنسی اس بات پر تھی کہ جن گناہوں کے اظہار سے ڈر رہا تھا ان کے اظہار کا خود طالب بن گیا ۔
Abu Dhar radiyallahu anhu says, “Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam said, “I know that person well who will enter Jannah first and also that person who will be the last one to be taken out of Jahannam. On the Day of Qiyaamah a person will be brought forward to the court of Almighty Allah. It shall be commanded that all the minor sins of that person be put forward to him and the major sisn be concealed. When the minor sins are disclosed to that person, he will accept that he had committed them, as there will be no room for refuting them. (He will begin to tremble and say in his heart that these are only the minor sins, what will happen when the major sins are exposed.) During this happening it shall be commanded that for every sin of that person he be given the ajr (thawaab-reward) of a good deed. Upon hearing this person himself will say I still have many sins left to account for, that are not seen here.”
Abu Dhar radiyallahu anhu says, “Rasoolullah sallallahu alaihe wasallam while narrating the words of that person began laughing until his mubarak teeth began to show.” (The reason being that the person himself disclosed the very sins he was frightened of.)
