جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ قرآن کی تفسیر کا بیان ۔ حدیث 1264

سورت منافقون کی تفسیر

راوی: ابن ابی عمر , سفیان , عمرو بن دینار , جابر بن عبداللہ

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ کُنَّا فِي غَزَاةٍ قَالَ سُفْيَانُ يَرَوْنَ أَنَّهَا غَزْوَةُ بَنِي الْمُصْطَلِقِ فَکَسَعَ رَجُلٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ الْمُهَاجِرِيُّ يَالِلْمُهَاجِرِينَ وَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ يَالِلْأَنْصَارِ فَسَمِعَ ذَلِکَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا بَالُ دَعْوَی الْجَاهِلِيَّةِ قَالُوا رَجُلٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ کَسَعَ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعُوهَا فَإِنَّهَا مُنْتِنَةٌ فَسَمِعَ ذَلِکَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولٍ فَقَالَ أَوَقَدْ فَعَلُوهَا وَاللَّهِ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعْهُ لَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ وَقَالَ غَيْرُ عَمْرٍو فَقَالَ لَهُ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَاللَّهِ لَا تَنْقَلِبُ حَتَّی تُقِرَّ أَنَّکَ الذَّلِيلُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَزِيزُ فَفَعَلَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابن ابی عمر، سفیان، عمرو بن دینار، حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں تھے۔ سفیان کہتے ہیں کہ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ غزوہ بنی مصطلق کا واقعہ ہے۔ اس میں ایک مہاجر نے ایک انصاری کو دھتکار دیا۔ اس پر مہاجر کہنے لگے اے مہاجرو اور انصاری انصار کو پکارنے لگے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب یہ سنا تو فرمایا کیا بات ہے یہ جاہلیت کی پکار کی کیا وجہ ہے؟ عرض کیا گیا کہ ایک مہاجر نے ایک انصاری کو دھتکار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت کی (اس عادت) کو چھوڑ دو یہ بری چیز ہے۔ یہ بات عبداللہ بن ابی نے سنی تو کہنے لگا کہ ان لوگوں نے اس طرح کیا ہے؟ جب ہم مدینہ جائیں گے تو وہاں کے معززین، ذلیل لوگوں کو وہاں سے نکال دیں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن اتار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جانے دو، ورنہ لوگ کہیں گے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے علاوہ دوسرے راوی کہتے ہیں کہ اس پر عبداللہ بن ابی کے بیٹے نے اپنے باپ سے کہا کہ اللہ کی قسم ہم اس وقت تکیہاں سے نہیں جائیں گے جب تک تم اس بات کا اقرار نہ کرو کہ تم ذلیل اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معزز ہیں۔ پھر اس نے اقرار کیا۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

Sayyidina Jabir ibn Abdullah (RA) reported that they were participating in a battle – Sufyan thought that it was the Battle of Banu Mustaliq. One of the Muhajirs kicked an Ansar, and called out, "O Muhajirs!" And the Ansar called for help. "O Ansars!" The Prophet (SAW) heard it and said, "What is wrong that you raise the cry of the.jahiliyah?" They said that a man of the Muhajirs had kicked one of Ansars. The Prophet (SAW) said, "Give up the practice (of the call), for, it is detestable." Abdullah ibn Ubayy ibn Salul heard that and asked. Have they done it? By Allah: They say, "If we return to Medina, surely the more honourable (element) will expel therefrom the meaner." (63; 8) Umar said, "O Messenger of Allah, permit me to chop off the head of this hypocrite." The Prophet (SAW) said, "Leave him alone else people will say that Muhammad kills his companions." A narrator other than Amr narrated that his son, Abdullah ibn Abdullah said, "By Allah! We shall not turn back till you admit that you are mean and Allah's Messenger (SAW) is honourable." So, he did admit that.

[Ahmed 14637, Bukhari 3518, Muslim 2584]

یہ حدیث شیئر کریں