سورئہ احزاب کی تفسیر
راوی: عبد بن حمید , روح بن عبادة , عوف , حسن ومحمد وخلاس , ابوہریرہ
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ عَوْفٍ عَنْ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ وَخِلَاسٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام کَانَ رَجُلًا حَيِيًّا سَتِيرًا مَا يُرَی مِنْ جِلْدِهِ شَيْئٌ اسْتِحْيَائً مِنْهُ فَآذَاهُ مَنْ آذَاهُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَقَالُوا مَا يَسْتَتِرُ هَذَا التَّسَتُّرَ إِلَّا مِنْ عَيْبٍ بِجِلْدِهِ إِمَّا بَرَصٌ وَإِمَّا أُدْرَةٌ وَإِمَّا آفَةٌ وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَرَادَ أَنْ يُبَرِّئَهُ مِمَّا قَالُوا وَإِنَّ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام خَلَا يَوْمًا وَحْدَهُ فَوَضَعَ ثِيَابَهُ عَلَی حَجَرٍ ثُمَّ اغْتَسَلَ فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ إِلَی ثِيَابِهِ لِيَأْخُذَهَا وَإِنَّ الْحَجَرَ عَدَا بِثَوْبِهِ فَأَخَذَ مُوسَی عَصَاهُ فَطَلَبَ الْحَجَرَ فَجَعَلَ يَقُولُ ثَوْبِي حَجَرُ ثَوْبِي حَجَرُ حَتَّی انْتَهَی إِلَی مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَرَأَوْهُ عُرْيَانًا أَحْسَنَ النَّاسِ خَلْقًا وَأَبْرَأَهُ مِمَّا کَانُوا يَقُولُونَ قَالَ وَقَامَ الْحَجَرُ فَأَخَذَ ثَوْبَهُ وَلَبِسَهُ وَطَفِقَ بِالْحَجَرِ ضَرْبًا بِعَصَاهُ فَوَاللَّهِ إِنَّ بِالْحَجَرِ لَنَدَبًا مِنْ أَثَرِ عَصَاهُ ثَلَاثًا أَوْ أَرْبَعًا أَوْ خَمْسًا فَذَلِکَ قَوْلُهُ تَعَالَی يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَکُونُوا کَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَی فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَکَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِيهِ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عبد بن حمید، روح بن عبادة، عوف، حسن ومحمد وخلاس، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا موسیٰ علیہ السلام بہت حیاء والے اور پردہ پوش (یعنی پردہ کرنے والے) تھے ان کی شرم کی وجہ سے ان کے بدن کا کوئی حصہ نظر نہیں آتا تھا۔ انہیں بنو اسرائیل کے کچھ لوگوں نے تکلیف پہنچائی۔ وہ لوگ کہنے لگے کہ یہ اپنے بدن کو اس لئے ڈھانپے رکھتے ہیں کہ ان کی جلد میں کوئی عیب ہے۔ یا تو برص کے ہیں یا ان کے خصیے بڑے ہیں، یا پھر کوئی اور عیب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس عیب سے بری کریں۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام ایک مرتبہ غسل کرنے لگے اور اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھ کر غسل کرنے لگے۔ جب غسل کرکے فارغ ہوئے تو کپڑے لینے کے لئے پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگ کھڑا ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا لیا اور اس کے پیچھے دوڑتے ہوئے کہنے لگے اے پتھر میرے کپڑے ! یہاں تک کہ وہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ کے پاس پہنچ گیا اور انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ننگا دیکھ لیا کہ وہ صورت وشکل میں سب سے زیادہ خوبصورت ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں بری کر دیا اور پتھر بھی رک گیا۔ پھر انہوں نے اپنے کپڑے لئے اور پہن کر عصا سے اسے مارنے لگے، اللہ قسم ! ان کی مار سے پتھر پر تین یا چار نشان پڑگئے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا یہی مطلب ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَکُونُوا کَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَی فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَکَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا لآیہ (اے ایمان والو ! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو تکلیف پہنچائی، پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں بری کر دیا اور وہ اللہ کے نزدیک بڑے معزز تھے۔ الاحزاب،) یہ حدیث حسن صحیح ہے اور کئی سندوں سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے واسطے سے منقول ہے۔
Sayyidina Abu Hurayrah (RA) reported that the Prophet said: Musa was very shy. He kept himself covered, nothing of his body was ever seen because of his modesty. But some of the Banu lsra’il annoyed him, saying, “He conceals his body to this extent only because of a defect on his skin, perhaps leprosy or scrotal hermia, or some other malady.” But, surely, Allah decided to absolve him of what they alleged. 0ne day, Musa secluded himself all alone and took ff his garments placing them on a stone. Then he had a bath. When he had finished, he approached his clothes that he might take them. But the stone fled with his garments. Musa took his staff and pursued the stone saying, “My garments, O stone! My garments, O stone!” He ended up at a company of Banu Israil and the observed hini naked, the best of men in creation. And he was cleared of what (calumnies) the’ used to allege. The stone stopped and he took his garments and wore them. Then he struck the stone with his staff. By Allah, the stone yet has marks of the beating three or four or five. This is as Allah’s words:
"O you who believe! Be not like those who annoyed Musa, but Allah cleared him of what they said, and he was honoured in Allah’s sight." (33: 69)
[Ahmed 10683, Bukhari 678, Muslim 339]
——————————————————————————–
