سورئہ احزاب کی تفسیر
راوی: قتیبہ بن سعید , جعفر بن سلیمان ضبعی , جعد ابوعثمان , انس بن مالک
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ عَنْ الْجَعْدِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ بِأَهْلِهِ قَالَ فَصَنَعَتْ أُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ حَيْسًا فَجَعَلَتْهُ فِي تَوْرٍ فَقَالَتْ يَا أَنَسُ اذْهَبْ بِهَذَا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْ لَهُ بَعَثَتْ بِهَذَا إِلَيْکَ أُمِّي وَهِيَ تُقْرِئُکَ السَّلَامَ وَتَقُولُ إِنَّ هَذَا لَکَ مِنَّا قَلِيلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَذَهَبْتُ بِهِ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ إِنَّ أُمِّي تُقْرِئُکَ السَّلَامَ وَتَقُولُ إِنَّ هَذَا مِنَّا لَکَ قَلِيلٌ فَقَالَ ضَعْهُ ثُمَّ قَالَ اذْهَبْ فَادْعُ لِي فُلَانًا وَفُلَانًا وَفُلَانًا وَمَنْ لَقِيتَ فَسَمَّی رِجَالًا قَالَ فَدَعَوْتُ مَنْ سَمَّی وَمَنْ لَقِيتُ قَالَ قُلْتُ لِأَنَسٍ عَدَدُ کَمْ کَانُوا قَالَ زُهَائَ ثَلَاثِ مِائَةٍ قَالَ وَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَنَسُ هَاتِ التَّوْرَ قَالَ فَدَخَلُوا حَتَّی امْتَلَأَتْ الصُّفَّةُ وَالْحُجْرَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَتَحَلَّقْ عَشَرَةٌ عَشَرَةٌ وَلْيَأْکُلْ کُلُّ إِنْسَانٍ مِمَّا يَلِيهِ قَالَ فَأَکَلُوا حَتَّی شَبِعُوا قَالَ فَخَرَجَتْ طَائِفَةٌ وَدَخَلَتْ طَائِفَةٌ حَتَّی أَکَلُوا کُلُّهُمْ قَالَ فَقَالَ لِي يَا أَنَسُ ارْفَعْ قَالَ فَرَفَعْتُ فَمَا أَدْرِي حِينَ وَضَعْتُ کَانَ أَکْثَرَ أَمْ حِينَ رَفَعْتُ قَالَ وَجَلَسَ مِنْهُمْ طَوَائِفُ يَتَحَدَّثُونَ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ وَزَوْجَتُهُ مُوَلِّيَةٌ وَجْهَهَا إِلَی الْحَائِطِ فَثَقُلُوا عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ عَلَی نِسَائِهِ ثُمَّ رَجَعَ فَلَمَّا رَأَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَجَعَ ظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ ثَقُلُوا عَلَيْهِ قَالَ فَابْتَدَرُوا الْبَابَ فَخَرَجُوا کُلُّهُمْ وَجَائَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی أَرْخَی السِّتْرَ وَدَخَلَ وَأَنَا جَالِسٌ فِي الْحُجْرَةِ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّی خَرَجَ عَلَيَّ وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَاتُ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَهُنَّ عَلَی النَّاسِ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَکُمْ إِلَی طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَکِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ قَالَ الْجَعْدُ قَالَ أَنَسٌ أَنَا أَحْدَثُ النَّاسِ عَهْدًا بِهَذِهِ الْآيَاتِ وَحُجِبْنَ نِسَائُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْجَعْدُ هُوَ ابْنُ عُثْمَانَ وَيُقَالُ هُوَ ابْنُ دِينَارٍ وَيُکْنَ أَبَا عُثْمَانَ بَصْرِيٌّ وَهُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ رَوَی عَنْهُ يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ وَشُعْبَةُ وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ
قتیبہ بن سعید، جعفر بن سلیمان ضبعی، جعد ابوعثمان، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ایک بیوی سے نکاح کیا اور ان کے پاس تشریف لے گئے تو میری والدہ نے حیس (کھجور اور ستو کا کھانا) تیار کیا اور اسے کسی پتھر کے پیالہ میں ڈال کر مجھے دیا اور کہا کہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤ اور کہو کہ میری ماں نے بھیجا ہے۔ وہ آپ کو سلام کہتی ہے اور عرض کرتی ہیں کہ ہماری طرف سے یہ آپ کے لئے بہت تھوڑا ہے یا رسول اللہ ! حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اسے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور والدہ کا سلام پہنچایا اور وہ بات بھی عرض کر دی جو انہوں نے کہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے رکھ دو۔ پھر مجھے حکم دیا کہ جاؤ اور فلاں فلاں کو بلا کر لاؤ۔ میں گیا اور جن جن کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا انہیں بھی اور جو مجھے مل گئے انہیں بھی بلا کر لے آیا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ کتنے آدمی ہوں گے۔ انہوں نے فرمایا تین سو کے قریب ہوں گے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ وہ برتن لاؤ۔ اتنے میں وہ سب لوگ داخل ہوگئے۔ یہاں تک کہ چبوترہ اور حجرہ مبارک بھر گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ دس دس آدمیوں کا حلقہ بنالیں اور ہر شخص اپنے سامنے سے کھائے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ان سب نے کھایا اور سیر ہوگئے۔ پھر ایک جماعت نکل گئی اور دوسری آگئی یہاں تک کہ سب نے کھالیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ انس (برتن) اٹھاؤ۔ میں نے اٹھایا تو میں نہیں جانتا کہ جس وقت لایا تھا اس وقت زیادہ تھا یا اٹھاتے وقت زیادہ تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر کئی لوگ وہیں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ بھی دیوار کی طرف رخ کئے ہوئے بیٹھی ہوئی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کا اس طرح بیٹھے رہنا گراں گذرا لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور تمام ازواج مطہرات کے حجروں پر گئے اور سلام کرے واپس تشریف لے آئے۔ جب انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس آتے ہوئے دیکھا تو سمجھ گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کا بیٹھنا گراں گذرا ہے۔ لہذا جلدی سے سب (لوگ) دروازے سے باہر چلے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اوپر پردہ ڈال کر اندر داخل ہوگئے۔ (حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ) میں بھی حجرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر گذری تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس میرے پاس آئے اور یہ آیات نازل ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر جا کر لوگوں کو یہ آیات سنائیں ( يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتَ النَّبِيِّ اِلَّا اَنْ يُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَيْرَ نٰظِرِيْنَ اِنٰىهُ وَلٰكِنْ اِذَا دُعِيْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْ تَاْنِسِيْنَ لِحَدِيْثٍ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ ) 33۔ الاحزاب : 53) (اے ایمان والو ! نبی کے گھروں میں اس وقت تک مت جایا کرو جب تک تمہیں کھانے کی دعوت نہ دی جائے (وہ بھی) اس طرح کہ تیاری کے منتظر نہ رہو لیکن جب تمہیں بلایا جائے تب جاؤ اور کھالینے کے بعد اٹھ کر چلے جاؤ اور باتوں میں دل لگا کر بیٹھے نہ رہا کرو کیوں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ناگوار گذرتا ہے وہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ صاف بات کہنے سے لحاظ نہیں کرتا اور جب تم ان (ازواج مطہرات) سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے مانگا کرو یہ تمہارے اور ان کے دلوں کو پاک رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ پھر تمہارے لئے جائز نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ ہی یہ جائز ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے کبھی نکاح کرو۔ یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے۔) جعد کہتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہ آیات سب سے پہلے مجھے پہنچیں اور ازواج مطہرات اسی دن سے پردہ کرنے لگیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور جعد عثمان کے بیٹے ہیں۔ انہیں ابن دینار بھی کہتے ہیں۔ ان کی کنیت ابوعثمان بصری ہے۔ یہ محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔ یونس بن عبید شعبہ اور حماد بن زید ان سے احادیث روایت کرتے ہیں۔
Sayyidina Anas bin Malik (RA) narrated: Allah's Messenger (SAW) consummated his marriage with one of his wives and sent me to invite people to the meal. When they had eaten and went out, Allah's Messenger (SAW) stood up to go towards the house of (Sayyidah) Ayshah, but he saw two men still seated. So, he returned. The two men got up and went away. This was revealed then; "O you who believe! Enter not the Prophet’s houses until leave is given you, for a meal, (and then) not (so early as) to wait for its preparation." (33 : 53) There is a lengthier account.
