جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ قرآن کی تفسیر کا بیان ۔ حدیث 1127

سورئہ نور کی تفسیر

راوی: محمود بن غیلان , ابواسامة , ہشام بن عروة , عائشہ

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا ذُکِرَ مِنْ شَأْنِي الَّذِي ذُکِرَ وَمَا عَلِمْتُ بِهِ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيَّ خَطِيبًا فَتَشَهَّدَ وَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَی عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي أُنَاسٍ أَبَنُوا أَهْلِي وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَی أَهْلِي مِنْ سُوئٍ قَطُّ وَأَبَنُوا بِمَنْ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُوئٍ قَطُّ وَلَا دَخَلَ بَيْتِي قَطُّ إِلَّا وَأَنَا حَاضِرٌ وَلَا غِبْتُ فِي سَفَرٍ إِلَّا غَابَ مَعِي فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ ائْذَنْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ أَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ وَقَامَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي الْخَزْرَجِ وَکَانَتْ أُمُّ حَسَّانَ ابْنِ ثَابِتٍ مِنْ رَهْطِ ذَلِکَ الرَّجُلِ فَقَالَ کَذَبْتَ أَمَا وَاللَّهِ أَنْ لَوْ کَانُوا مِنْ الْأَوْسِ مَا أَحْبَبْتَ أَنْ تُضْرَبَ أَعْنَاقُهُمْ حَتَّی کَادَ أَنْ يَکُونَ بَيْنَ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ شَرٌّ فِي الْمَسْجِدِ وَمَا عَلِمْتُ بِهِ فَلَمَّا کَانَ مَسَائُ ذَلِکَ الْيَوْمِ خَرَجْتُ لِبَعْضِ حَاجَتِي وَمَعِي أُمُّ مِسْطَحٍ فَعَثَرَتْ فَقَالَتْ تَعِسَ مِسْطَحٌ فَقُلْتُ لَهَا أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَکِ فَسَکَتَتْ ثُمَّ عَثَرَتْ الثَّانِيَةَ فَقَالَتْ تَعِسَ مِسْطَحٌ فَانْتَهَرْتُهَا فَقُلْتُ لَهَا أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَکِ فَسَکَتَتْ ثُمَّ عَثَرَتْ الثَّالِثَةَ فَقَالَتْ تَعِسَ مِسْطَحٌ فَانْتَهَرْتُهَا فَقُلْتُ لَهَا أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَکِ فَقَالَتْ وَاللَّهِ مَا أَسُبُّهُ إِلَّا فِيکِ فَقُلْتُ فِي أَيِّ شَيْئٍ قَالَتْ فَبَقَرَتْ لِي الْحَدِيثَ قُلْتُ وَقَدْ کَانَ هَذَا قَالَتْ نَعَمْ وَاللَّهِ لَقَدْ رَجَعْتُ إِلَی بَيْتِي وَکَأَنَّ الَّذِي خَرَجْتُ لَهُ لَمْ أَخْرُجْ لَا أَجِدُ مِنْهُ قَلِيلًا وَلَا کَثِيرًا وَوُعِکْتُ فَقُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسِلْنِي إِلَی بَيْتِ أَبِي فَأَرْسَلَ مَعِي الْغُلَامَ فَدَخَلْتُ الدَّارَ فَوَجَدْتُ أُمَّ رُومَانَ فِي السُّفْلِ وَأَبُو بَکْرٍ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ فَقَالَتْ أُمِّي مَا جَائَ بِکِ يَا بُنَيَّةُ قَالَتْ فَأَخْبَرْتُهَا وَذَکَرْتُ لَهَا الْحَدِيثَ فَإِذَا هُوَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مَا بَلَغَ مِنِّي قَالَتْ يَا بُنَيَّةُ خَفِّفِي عَلَيْکِ الشَّأْنَ فَإِنَّهُ وَاللَّهِ لَقَلَّمَا کَانَتْ امْرَأَةٌ حَسْنَائُ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا لَهَا ضَرَائِرُ إِلَّا حَسَدْنَهَا وَقِيلَ فِيهَا فَإِذَا هِيَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مَا بَلَغَ مِنِّي قَالَتْ قُلْتُ وَقَدْ عَلِمَ بِهِ أَبِي قَالَتْ نَعَمْ قُلْتُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ نَعَمْ وَاسْتَعْبَرْتُ وَبَکَيْتُ فَسَمِعَ أَبُو بَکْرٍ صَوْتِي وَهُوَ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ فَنَزَلَ فَقَالَ لِأُمِّي مَا شَأْنُهَا قَالَتْ بَلَغَهَا الَّذِي ذُکِرَ مِنْ شَأْنِهَا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ فَقَالَ أَقَسَمْتُ عَلَيْکِ يَا بُنَيَّةُ إِلَّا رَجَعْتِ إِلَی بَيْتِکِ فَرَجَعْتُ وَلَقَدْ جَائَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِي فَسَأَلَ عَنِّي خَادِمَتِي فَقَالَتْ لَا وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا عَيْبًا إِلَّا أَنَّهَا کَانَتْ تَرْقُدُ حَتَّی تَدْخُلَ الشَّاةُ فَتَأْکُلَ خَمِيرَتَهَا أَوْ عَجِينَتَهَا وَانْتَهَرَهَا بَعْضُ أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَصْدِقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی أَسْقَطُوا لَهَا بِهِ فَقَالَتْ سُبْحَانَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا إِلَّا مَا يَعْلَمُ الصَّائِغُ عَلَی تِبْرِ الذَّهَبِ الْأَحْمَرِ فَبَلَغَ الْأَمْرُ ذَلِکَ الرَّجُلَ الَّذِي قِيلَ لَهُ فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا کَشَفْتُ کَنَفَ أُنْثَی قَطُّ قَالَتْ عَائِشَةُ فَقُتِلَ شَهِيدًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَتْ وَأَصْبَحَ أَبَوَايَ عِنْدِي فَلَمْ يَزَالَا حَتَّی دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ صَلَّی الْعَصْرَ ثُمَّ دَخَلَ وَقَدْ اکْتَنَفَنِي أَبَوَايَ عَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي فَتَشَهَّدَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَی عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ يَا عَائِشَةُ إِنْ کُنْتِ قَارَفْتِ سُوئًا أَوْ ظَلَمْتِ فَتُوبِي إِلَی اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ قَالَتْ وَقَدْ جَائَتْ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَهِيَ جَالِسَةٌ بِالْبَابِ فَقُلْتُ أَلَا تَسْتَحْيِي مِنْ هَذِهِ الْمَرْأَةِ أَنْ تَذْکُرَ شَيْئًا فَوَعَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَالْتَفَتُّ إِلَی أَبِي فَقُلْتُ أَجِبْهُ قَالَ فَمَاذَا أَقُولُ فَالْتَفَتُّ إِلَی أُمِّي فَقُلْتُ أَجِيبِيهِ قَالَتْ أَقُولُ مَاذَا قَالَتْ فَلَمَّا لَمْ يُجِيبَا تَشَهَّدْتُ فَحَمِدْتُ اللَّهَ وَأَثْنَيْتُ عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قُلْتُ أَمَا وَاللَّهِ لَئِنْ قُلْتُ لَکُمْ إِنِّي لَمْ أَفْعَلْ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنِّي لَصَادِقَةٌ مَا ذَاکَ بِنَافِعِي عِنْدَکُمْ لِي لَقَدْ تَکَلَّمْتُمْ وَأُشْرِبَتْ قُلُوبُکُمْ وَلَئِنْ قُلْتُ إِنِّي قَدْ فَعَلْتُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي لَمْ أَفْعَلْ لَتَقُولُنَّ إِنَّهَا قَدْ بَائَتْ بِهِ عَلَی نَفْسِهَا وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لِي وَلَکُمْ مَثَلًا قَالَتْ وَالْتَمَسْتُ اسْمَ يَعْقُوبَ فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَيْهِ إِلَّا أَبَا يُوسُفَ حِينَ قَالَ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَی مَا تَصِفُونَ قَالَتْ وَأُنْزِلَ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَاعَتِهِ فَسَکَتْنَا فَرُفِعَ عَنْهُ وَإِنِّي لَأَتَبَيَّنُ السُّرُورَ فِي وَجْهِهِ وَهُوَ يَمْسَحُ جَبِينَهُ وَيَقُولُ الْبُشْرَی يَا عَائِشَةُ فَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ بَرَائَتَکِ قَالَتْ فَکُنْتُ أَشَدَّ مَا کُنْتُ غَضَبًا فَقَالَ لِي أَبَوَايَ قُومِي إِلَيْهِ فَقُلْتُ لَا وَاللَّهِ لَا أَقُومُ إِلَيْهِ وَلَا أَحْمَدُهُ وَلَا أَحْمَدُکُمَا وَلَکِنْ أَحْمَدُ اللَّهَ الَّذِي أَنْزَلَ بَرَائَتِي لَقَدْ سَمِعْتُمُوهُ فَمَا أَنْکَرْتُمُوهُ وَلَا غَيَّرْتُمُوهُ وَکَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ أَمَّا زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِدِينِهَا فَلَمْ تَقُلْ إِلَّا خَيْرًا وَأَمَّا أُخْتُهَا حَمْنَةُ فَهَلَکَتْ فِيمَنْ هَلَکَ وَکَانَ الَّذِي يَتَکَلَّمُ فِيهِ مِسْطَحٌ وَحَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ وَالْمُنَافِقُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ وَهُوَ الَّذِي کَانَ يَسُوسُهُ وَيَجْمَعُهُ وَهُوَ الَّذِي تَوَلَّی کِبْرَهُ مِنْهُمْ هُوَ وَحَمْنَةُ قَالَتْ فَحَلَفَ أَبُو بَکْرٍ أَنْ لَا يَنْفَعَ مِسْطَحًا بِنَافِعَةٍ أَبَدًا فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی هَذِهِ الْآيَةَ وَلَا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَةِ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ يَعْنِي أَبَا بَکْرٍ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَی وَالْمَسَاکِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَعْنِي مِسْطَحًا إِلَی قَوْلِهِ أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَکُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ قَالَ أَبُو بَکْرٍ بَلَی وَاللَّهِ يَا رَبَّنَا إِنَّا لَنُحِبُّ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا وَعَادَ لَهُ بِمَا کَانَ يَصْنَعُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ وَقَدْ رَوَاهُ يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ وَمَعْمَرٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَعَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيِّ وَعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَائِشَةَ هَذَا الْحَدِيثَ أَطْوَلَ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ وَأَتَمَّ

محمود بن غیلان، ابواسامة، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں جب میرے متعلق لوگوں میں تذکرہ ہونے لگا جس کی مجھے بالکل خبر نہ تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے متعلق خطاب کرنے کے لئے کھڑے ہوئے۔ اور تشہد کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا لوگو ! مجھے ان لوگوں کے متعلق مشورہ دو جنہوں نے میری بیوی پر تہمت لگائی ہے۔ اللہ کی قسم ! میں نے اپنی بیوی میں کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی۔ اور اس میں بھی کوئی برائی نہیں دیکھی جس کے ساتھ ان لوگوں نے اس کو متہم کیا وہ میری عدم موجودگی میں کبھی میرے گھر میں داخل نہیں ہوا۔ پھر وہ ہر سفر میں میرے ساتھ شریک رہا ہے۔ اس پر سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں ان کی گردنیں اتار دوں۔ قبیلہ خزرج کا ایک شخص کھڑا ہوا (حسان بن ثابت کی والدہ ان کی برادری سے تعلق رکھتی تھیں) اور (سعد سے) کہنے لگا اللہ کی قسم ! تم جھوٹ بولتے ہو کیوں کہ اللہ کی قسم ! اگر ان لوگوں کا تعلق قبیلہ اوس سے ہوتا تم کبھی یہ بات نہ کرتے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ مسجد ہی میں اوس وخزرج کے درمیان لڑائی کا خدشہ ہوگیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے اس کا علم بھی نہ تھا۔ اس روز شام کے وقت ام مسطح کے ساتھ کسی کام کے لئے نکلی (چلتے ہوئے) ام مسطح کو ٹھوکر لگی تو کہنے لگی کہ مسطح ہلاک ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ان سے کہا کیا بات آپ نے اپنے بیٹے کو کیوں کوس رہی ہیں وہ خاموش ہوگئیں۔ تھوڑی دیر بعد کچھ ٹھوکر لگی اور مسطح کی ہلاکت کی بددعا کی۔ میں نے دوبارہ ان سے پوچھا لیکن اس مرتبہ بھی وہ خاموش رہیں۔ تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا تو میں نے انہیں ڈانٹا اور کہا کہ آپ اپنے بیٹے کے لئے بدعا کرتی ہیں۔ ام مسطح کہنے لگیں اللہ کی قسم ! میں اسے تمہاری وجہ سے ہی کوس رہی ہوں۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں۔) میں نے پوچھا میرے متعلق کس وجہ سے؟ اس پر انہوں نے ساری حقیقت کھول کر بیان کر دی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا واقعی یہی بات ہے؟ وہ کہنے لگیں ہاں اللہ کی قسم ! میں واپس لوٹ گئی اور جس کام کیلئے نکلی تھی اس کی ذرا سی بھی حاجت باقی نہ رہی اور پھر مجھے بخار ہوگیا۔ پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے میرے والد کے گھر بھیج دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے ساتھ ایک غلام کو بھیج دیا۔ میں گھر میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ ام رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ) نیچے ہیں اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوپر قرآن کریم پڑھ رہے ہیں (والدہ) نے پوچھا بیٹی کیسے آئی ہو؟ میں نے ان کے سامنے پورا قصہ بیان کیا۔ اور بتایا کہ اس کا لوگوں میں چرچا ہو چکا ہے۔ انہیں بھی اس سے اتنی تکلیف ہوئی جتنی مجھے ہوئی تھی۔ وہ مجھ سے کہنے لگیں۔ بیٹی گھبرانا نہیں اس لئے کہ اللہ کی قسم کوئی خوبصورت عورت ایسی جس سے اس کی سوکنوں کے ہوتے ہوئے اس کا شوہر محبت کرتا ہو اور وہ (سوکنیں) اس سے حسد نہ کریں اور اس کے متعلق باتیں نہ بنائی جائیں یعنی انہیں وہ اذیت نہیں پہنچی جو مجھے ہوئی تھی۔ پھر میں نے پوچھا کہ کیا میرے والد بھی یہ بات جانتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا ہاں پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق پوچھا تو بتایا کہ ہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یہ بات جانتے ہیں۔ اس پر میں اور زیادہ غمگین ہوئی اور رونے لگی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرے رونے کی آواز سنی تو نیچے تشریف لائے اور میری والدہ سے پوچھا کہ اسے کیا ہوا۔ انہوں نے عرض کیا کہ اسے اپنے متعلق پھیلنے والی بات کا علم ہوگیا ہے۔ لہذا اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا بیٹی میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ اپنے گھر واپس لوٹ جاؤ۔ میں واپس گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اور میری خادمہ سے میرے متعلق دریافت کیا تو اس نے کہا اللہ کی قسم ! مجھے ان میں کسی عیب کا علم نہیں اتنا ضرور ہے کہ وہ (یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سو جایا کرتی تھیں اور بکری اندر داخل ہو کر آٹا کھا جایا کرتی تھی۔ (راوی کو شک ہے کہ خمیر تھا کہا یا عجینتھا تھا) اس پر بعض صحابہ نے اسے ڈانٹا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سچ بولو۔ یہاں تک کہ بعض نے اسے (یعنی خادمہ کو) برا بھلا کہا۔ وہ کہنے لگی سُبْحَانَ اللَّهِ۔ اللہ کی قسم ! میں ان کے (یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے) متعلق اس طرح جانتی ہوں جس طرح سنار خالص اور سرخ سونے کو پہچانتا ہے۔ پھر اس شخص کو بھی یہ بات پتہ چل گئی۔ جس کے بارے میں واقعہ کہا گیا تھا۔ وہ بھی کہنے لے سُبْحَانَ اللَّهِ اللہ کی قسم ! میں نے کبھی کسی عورت کا ستر نہیں کھولا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ پھر وہ شخص اللہ کی راہ میں شہید ہوگیا۔ اس کے بعد صبح کے وقت میرے والدین میرے پاس آئے۔ وہ ابھی میرے پاس ہی تھے کہ عصر کی نماز پڑھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف لے آئے۔ میرے والدین میرے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تشہد پڑھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء بیان کی اور فرمایا اے عائشہ اگر برائی کے قریب گئی ہو یا تم نے اپنے اوپر ظلم کیا تو اللہ تعالیٰ سے توبہ کرلو۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتے ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک انصاری عورت آئی اور دروازے میں بیٹھ گئی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا آپ اس عورت کی موجودگی میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے حیاء نہیں فرماتے۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وعظ ونصیحت کی تو میں اپنے والد کی طرف متوجہ ہوئی اور عرض کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جواب دیجئے۔ انہوں نے بھی یہی کہا۔ جب دونوں نے کوئی جواب نہیں دیا تو میں نے تشہد پڑھ کر حمد وثناء بیان کرنے کے بعد کہا اللہ کی قسم ! اگر میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر حضرات سے یہ کہوں کہ میں نے یہ کام نہی کیا تب بھی یہ بات مجھے فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ اس لئے کہ بات تم لوگوں کے سامنے کہی جا چکی ہے اور تمہارے دلوں میں سرائیت کر گئی ہے اور اگر میں یہ کہوں کہ ہاں میں نے یہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ کہ میں نے نہیں کیا تم لوگ کہو گے کہ اس نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا۔ اللہ کی قسم ! میں تمہارے اور اپنے متعلق کوئی مثال نہی جانتی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں پھر میں نے یعقوب علیہ السلام کا نام لینا چاہا تو میرے ذہن میں نہیں آیا۔ اتنا ہی آیا کہ وہ ابویوسف علیہ السلام ہیں۔ (یعنی میرا قصہ بھی انہی کی طرح ہے جیسے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو کھو نے کے بعد فرمایا فصبر جمیل یعنی صبر ہی بہتر ہے اور جس طرح تم بیان کر رہے ہو اس پر اللہ تعالیٰ مددگار رہے گا) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ پھر اسی وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوئی اور ہم لوگ خاموش ہوگئے۔ جب وحی کے آثار ختم ہوئے تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور پر خوشی کے آثار دیکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی پیشانی سے پسینہ پوچھتے ہوئے فرمانے لگے۔ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تمہیں بشارت ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تمہاری پاکیزگی اور برأت نازل فرما دی ہے۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں بہت غصہ میں تھی کہ میرے والدین نے مجھ سے کہا کہ اٹھو اور کھڑی ہو جاؤ (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شکریہ ادا کرو) عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے کہا اللہ کی قسم ! نہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شکریہ ادا کروں گی اور نہ آپ (ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ام رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہ) دونوں کا بلکہ اللہ رب العالمین کا شکریہ ادا کرونگی اور اس کی ہی تعریف کروں گی جس نے میری برأت نازل کی۔ آپ لوگوں نے تو میرے متعلق یہ بات سن کر نہ اس کا انکار کیا اور نہ اسے روکنے کی کوشش کی۔ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ زینب بنت جحش کو اللہ تعالیٰ نے اس کی دینداری کی وجہ سے بچالیا اور اس نے اس موقع پر اچھی بات کہی لیکن ان کی بہن حمنہ برباد ہونے والوں کے ساتھ ہوگئیں۔ اس تہمت کو پھیلانے والوں میں مسطح، حسان بن ثابت اور عبداللہ بن ابی شامل تھے۔ عبداللہ بن ابی (منافق) ہی شوشے چھوڑتا اور خبریں جمع کرتا اور اس میں اسی کا زیادہ ہاتھ تھا۔ حمنہ بھی اس کے ساتھ شریک تھیں۔ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قسم کھائی کہ اب مسطح کو کبھی فائدہ نہ پہنچائیں گے تو یہ آیات نازل ہوئیں (وَلَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ اَنْ يُّؤْتُوْ ا اُولِي الْقُرْبٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ) 24۔ النور : 22)۔ (اہل فضل اور رزق میں کشادگی رکھنے والے قسم نہ کھائیں (مراد ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں) کہ رشتہ داروں، مساکین اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہیں دیں گے) اس سے مراد مسطح ہیں۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) 24۔ النور : 22) (کیا تن لوگ نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تم کو معاف کر دے اور وہ بہت معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔) اس پر ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیوں نہیں اے اللہ ! اللہ کی قسم ہم تیری مغفرت چاہتے ہیں اور پھر مسطح کو پہلے کی طرح دینے لگے۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ یونس بن یزید، معمر اور کئی راوی یہ حدیث زہری سے وہ عروہ بن زبیر سے وہ سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص لیثی اور عبداللہ بن عبداللہ سے اور یہ سب حضرات عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہشام بن عروہ کی حدیث سے زیادہ مکمل اور لمبی حدیث نقل کرتے ہیں۔

Sayyidah Ayshah narrated: When whatever was said about me and I was unaware of it, Allah’s Messenger (SAW) got up to address the people about me. He began with the tashahhud (testimony of Allah’s Unity and of the messenger ship). He praised Allah and glorified Him as He is worthy of it. He then said, ‘To proceed: Give me advice about those people who slander my wife. By Allah, I do not know of any evil in my wife, not at all! And they accuse her of being with a man of whom I know no evil, not at all! he never enters my house except when I am there. He never undertook a journey except with me.” Sa'd ibn Mu’adh stood up and said. “Permit me, O Messenger of Allah that I may sever their necks.” A man from the Khazraj also got up-the mother of Hassan ibn Thabit was of the same tribe are this man-and he said, “You lie. By Allah, if those people were from the Aws, you would not have loved to strike at their necks.” This went so far that there nearly was evil between Aws and Khazraj in the mosque. But I did not know of it. When it was evening of that day, I went out to attend to one of my needs with Umm Mistah. She stumbled and exclaimed, “May Mistah perish.” I said to her, “0Mother, do you revile your son?” But she did not say anything. She stumbled a second time and said, “May Mistah be ruined.” I said to her, “0Mother, do you revile your son?” She did not answer. Again, she stumbled the third time and said, “May Mistah perish!” So, I rebuked her for that, saying, “0Mother, you revile your son?” She said, “By Allah, I do not revile him except for your sake.” I asked her, “What about me?” She narrated the hadith (account of what had transpired). I asked “And is that really so?” She confirmed that it was so. I returned home not at all being pressed to follow that for which I had gone out. I fell ill and the said to Allah’s Messenger, “Send me to the house of my father.” He sent me there and sent a slave with me. I entered the house and found Umm Ruman my mother) downstairs and Abu Bakr upstairs reciting (the Qur’an). She asked me “What is with you, 0daughter?” I informed her, relating the entire account but she was not as hurt by it as I was. She to me, “0my daughter, do not take it too hard. It is always that a beautiful woman who is loved by her husband and she has co-wives will find jealousy surrounding her. Her faults are picked.” But she was not as hurt about it as I was. I asked her if my father knew about it. She said, “Yes.” I was more grieved at that and wept loudly. Abu Bakr heard my voice. He was upstairs reciting the Quran. He came down and asked my mother how it was with me. She told him that I had learnt of the matter. Tears came to his daughter, go back to your home.” So, I went back eyes. He said, “I adjure you, 0home. Allah’s Messenger -‘ had already come home and aked my maidservant about me She said, “By Allah, I do not know of any defect in her except that she goes to sleep and the sheep enters the house devouring her flour or her dough.” Some of the Prophet’s sahabah scolded her, saying. “Speak the truth before Allah’s Messenger. They were rude to her and she said, “Subahan Allah". By Allah, I know about her as a jeweler knows pure gold.” When that man of whom the accusation was made learnt of this, he said, “Subhan Allah! I have never seen a woman’s satr (concealed body).” He was then martyred in Allah’s cause (in a battle). In the morning my parents came to me. They remained with me till Allah’s Messenger (SAW) came, having offered the salah of asr. He came in and my parents were sitting on either side of me. The Prophet recited the tashahhud, glorified Allah in words worthy of Him. Then he said, “Amma ba’d (To proceed), O Ayshah! If you have committed an evil deed or wronged (yourself) then repent to Allah, for, indeed Allah accepts repentance from His slaves.” Meanwhile, an Ansar woman came and sat down by the door. I said (to him), “Do you not feel shy to speak so in the presence of this woman?” And he did deliver words of advice and admonition. I turned to my father and requested him to answer him, but he said, “What may I say?” Then I turned to my mother and asked her to say something, but she said, “Say what?” When they gave no reply, I recited the tashahhud, praised Allah and glorified Him with words worthy of Him. Then I said, “Now, if I were to tell you that I have done no such thing and Allah is witness that I am truthful that would be of no avail to me before you because you have spoken about it and your hearts have already accepted that. But if I say that I have done it, and Allah knows that I have not done it, you would say surely that I have confessed to the crime. By Allah, I do not find an example for myself and for you,” and I intended to take the name of Ya’qub but I could not recall it except Abu Yusuf (father of Yusuf) when he said:

‘(For me) goodly patience! And Allah is He Whose help is ever there to seek against that which you describe. (12 : 18)

At that very instant, revelation descended on Allah’s Messenger (SAW). We kept silent.

When it was over, I detected signs of relief on the Prophet’s (SAW) face. He was wiping his forchead when he said,”Good tings to you, 0Ayshah! Allah has indeed revealed your acquital.”

But I was in sever anger. My parents said to me, “Get up and go to him,” but I refused. “No, by Allah! By Allah, I will not go to him.”

Neither do I praise him nor do I praise you two, but I praise Allah Who has revealed my innocence. You all did hear it, yet you did not deny or change it.” Sayyidah Ayshah used to say. “As for Zaynab bint Jahsh, Allah protected her because of her religious attitude and she did not say anything but good (words). As for her sister, Hamnah, she was ruined along with those who were ruined. And those who spoke about the affair (a derogatory speech) were Mistah, Hassan ibn Thabit and the hypocrite Abdullah ibn Ubayy, who circulated the rumour and incited others to do likewise. He and Hamnah were in the lead in this affair.” She added that Abu Bakr swore never to show favour to Mistah (with help), but Allah revealed this verse let not the possessors of bounty and abundance among you: that is, Abu Bakr swear off giving to the kinsmen and the needy and the emigrants in the way of Allah:

"That is, Mistah let them pardon and overlook. Do you not love that Allah should forgive you? And Allah is Forgiving, Merciful." (24 : 22)

So, Abu Bakr said, “Certainly, by Allah, 0our Lord! We love that You forgive us.” And he restored to him (Mistah) whatever he was accustomed to give.

184757, Muslim 2770, Ahmed 24371]

یہ حدیث شیئر کریں