تفسیر سورت کہف
راوی: ابن ابی عمر , سفیان , عمرو بن دینار , سعدی بن جبیر , سعید بن جبیر
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبِکَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَی صَاحِبَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَيْسَ بِمُوسَی صَاحِبِ الْخَضِرِ قَالَ کَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ سَمِعْتُ أُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَامَ مُوسَی خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَقَالَ أَنَا أَعْلَمُ فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ فَأَوْحَی اللَّهُ إِلَيْهِ أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْکَ قَالَ أَيْ رَبِّ فَکَيْفَ لِي بِهِ فَقَالَ لَهُ احْمِلْ حُوتًا فِي مِکْتَلٍ فَحَيْثُ تَفْقِدُ الْحُوتَ فَهُوَ ثَمَّ فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ مَعَهُ فَتَاهُ وَهُوَ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ فَجَعَلَ مُوسَی حُوتًا فِي مِکْتَلٍ فَانْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ يَمْشِيَانِ حَتَّی أَتَيَا الصَّخْرَةَ فَرَقَدَ مُوسَی وَفَتَاهُ فَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمِکْتَلِ حَتَّی خَرَجَ مِنْ الْمِکْتَلِ فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ قَالَ وَأَمْسَکَ اللَّهُ عَنْهُ جِرْيَةَ الْمَائِ حَتَّی کَانَ مِثْلَ الطَّاقِ وَکَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا وَکَانَ لِمُوسَی وَلِفَتَاهُ عَجَبًا فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمَا وَلَيْلَتِهِمَا وَنُسِّيَ صَاحِبُ مُوسَی أَنْ يُخْبِرَهُ فَلَمَّا أَصْبَحَ مُوسَی قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَائَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا قَالَ وَلَمْ يَنْصَبْ حَتَّی جَاوَزَ الْمَکَانَ الَّذِي أُمِرَ بِهِ قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَی الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْکُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا قَالَ مُوسَی ذَلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَی آثَارِهِمَا قَصَصًا قَالَ يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا قَالَ سُفْيَانُ يَزْعُمُ نَاسٌ أَنَّ تِلْکَ الصَّخْرَةَ عِنْدَهَا عَيْنُ الْحَيَاةِ وَلَا يُصِيبُ مَاؤُهَا مَيِّتًا إِلَّا عَاشَ قَالَ وَکَانَ الْحُوتُ قَدْ أُکِلَ مِنْهُ فَلَمَّا قُطِرَ عَلَيْهِ الْمَائُ عَاشَ قَالَ فَقَصَّا آثَارَهُمَا حَتَّی أَتَيَا الصَّخْرَةَ فَرَأَی رَجُلًا مُسَجًّی عَلَيْهِ بِثَوْبٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَی فَقَالَ أَنَّی بِأَرْضِکَ السَّلَامُ قَالَ أَنَا مُوسَی قَالَ مُوسَی بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ قَالَ يَا مُوسَی إِنَّکَ عَلَی عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَکَهُ لَا أَعْلَمُهُ وَأَنَا عَلَی عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لَا تَعْلَمُهُ فَقَالَ مُوسَی هَلْ أَتَّبِعُکَ عَلَی أَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا قَالَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا وَکَيْفَ تَصْبِرُ عَلَی مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَائَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَکَ أَمْرًا قَالَ لَهُ الْخَضِرُ فَإِنْ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْئٍ حَتَّی أُحْدِثَ لَکَ مِنْهُ ذِکْرًا قَالَ نَعَمْ فَانْطَلَقَ الْخَضِرُ وَمُوسَی يَمْشِيَانِ عَلَی سَاحِلِ الْبَحْرِ فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ فَکَلَّمَاهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمَا فَعَرَفُوا الْخَضِرَ فَحَمَلُوهُمَا بِغَيْرِ نَوْلٍ فَعَمَدَ الْخَضِرُ إِلَی لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ فَنَزَعَهُ فَقَالَ لَهُ مُوسَی قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَی سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا ثُمَّ خَرَجَا مِنْ السَّفِينَةِ فَبَيْنَمَا هُمَا يَمْشِيَانِ عَلَی السَّاحِلِ وَإِذَا غُلَامٌ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ فَاقْتَلَعَهُ بِيَدِهِ فَقَتَلَهُ قَالَ لَهُ مُوسَی أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَکِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُکْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَکَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ وَهَذِهِ أَشَدُّ مِنْ الْأُولَی قَالَ إِنْ سَأَلْتُکَ عَنْ شَيْئٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا فَانْطَلَقَا حَتَّی إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ يَقُولُ مَائِلٌ فَقَالَ الْخَضِرُ بِيَدِهِ هَکَذَا فَأَقَامَهُ فَقَالَ لَهُ مُوسَی قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ فَلَمْ يُضَيِّفُونَا وَلَمْ يُطْعِمُونَا لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِکَ سَأُنَبِّئُکَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَی لَوَدِدْنَا أَنَّهُ کَانَ صَبَرَ حَتَّی يَقُصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَخْبَارِهِمَا قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأُولَی کَانَتْ مِنْ مُوسَی نِسْيَانٌ قَالَ وَجَائَ عُصْفُورٌ حَتَّی وَقَعَ عَلَی حَرْفِ السَّفِينَةِ ثُمَّ نَقَرَ فِي الْبَحْرِ فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُکَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِثْلُ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنْ الْبَحْرِ قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَکَانَ يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ وَکَانَ أَمَامَهُمْ مَلِکٌ يَأْخُذُ کُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا وَکَانَ يَقْرَأُ وَأَمَّا الْغُلَامُ فَکَانَ کَافِرًا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَاهُ الزُّهْرِيُّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ رَوَاهُ أَبُو إِسْحَقَ الْهَمْدَانِيُّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَی سَمِعْت أَبَا مُزَاحِمٍ السَّمَرْقَنْدِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ يَقُولُ حَجَجْتُ حَجَّةً وَلَيْسَ لِي هِمَّةٌ إِلَّا أَنْ أَسْمَعَ مِنْ سُفْيَانَ يَذْکُرُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ الْخَبَرَ حَتَّی سَمِعْتُهُ يَقُولُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ وَقَدْ کُنْتُ سَمِعْتُ هَذَا مِنْ سُفْيَانَ مِنْ قَبْلِ ذَلِکَ وَلَمْ يَذْکُرْ فِيهِ الْخَبَرَ
ابن ابی عمر، سفیان، عمرو بن دینار، سعدی بن جبیر، حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما عرض کیا کہ نوف بکالی کہتا ہے کہ بنی اسرائیل والے موسیٰ علیہ السلام وہ نہیں جن کا خضر کے ساتھ بھی ایک قصہ ہے۔ انہوں نے فرمایا اللہ کا دشمن جھوٹ بولتا ہے۔ میں ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو خطاب کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو ان سے سوال کیا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ علم کس کے پاس ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا میرے پاس، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب کیا کہ علم کو اللہ کی طرف منسوب کیوں نہیں کیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کی بحریں جہاں دو دریا ملتے ہیں وہاں میرے بندوں میں سے ایک بندہ ایسا ہے جس کے پاس آپ سے زیادہ علم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا اے رب ! میں کس طرح اس کے پاس پہنچوں گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا زنبیل میں ایک مچھلی رکھ کر چل دو جہاں وہ کھوجائے گی وہیں وہ شخص آپ کو لے گا۔ پھر موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ستھ اپنے خادم یوشع بن نون کو لیا اور زنبیل میں مچھلی رکھ کر چل دیئے یہاں تک کہ ایک ٹیلے کے پاس پہنچے تو موسیٰ علیہ السلام اور ان کے خادم دونوں لیٹ گئے اور سوگئے۔ مچھلی زنبیل میں کودنے لگی۔ یہاں تک کہ نکل کر دریا میں گرگئی۔ اللہ تعالیٰ نے پانی کا بہاؤ وہیں روک دیا اور وہاں طاق سابن گیا اور اس کا راستہ ویسا ہی بنا رہا۔ جب کہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی بھول گئے کہ انہیں مچھلی کے متعلق بتائیں، صبح ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھی سے کھانا طلب کیا اور فرمایا کہ اس سفر میں ہمیں بہت تھکن ہوئی ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام اسی وقت تھکے جب اس جگہ سے تجاوز کیا جس کے متعلق حکم دیا گیا تھا کہ ان کے ساتھی نے کہا۔ دیکھئے جب ہم ٹیلے پر ٹھہرے تو میں مچھلی بھول گیا تھا اور یقینا یہ شیطان ہی کا کام ہے کہ مجھے بھلادیا کہ میں آپ سے اس کا تذکرہ کروں کہ اس نے عجیب طریقے سے دریا کا راستہ اختیار کیا۔ موسیٰ علیہ السلام فرمانے لگے وہی جگہ تم تلاش کر رہے گھے۔ چنانچہ وہ دونوں اپنے قدموں کے نشانوں پر واپس لوٹے۔ سفیان کہتے ہیں کہ لوگوں کا خیال ہے کہ اسی ٹیلے کے پاس آب حیات کا چشمہ ہے۔ جس مردہ پر پڑے وہ زندہ ہو جاتا ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ اس مچھلی میں کچھ وہ کھاچکے تھے۔ جب اس پر پانی ٹپکا تو وہ زندہ ہوگئی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ دونوں اپنے قدموں کے نشانات پر چلتے چلتے چٹان کے پاس پہنچے تو ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ چادر سے اپنے آپ کو ڈھانکے ہوئے ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا اس زمین میں سلام کہاں؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا میں زمین میں موسیٰ ہوں۔ انہوں نے پوچھا بنی اسرائیل کا موسیٰ ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہاں حضرت خضر نے فرمایا اے موسیٰ تمہارے پاس اللہ کا دیا ہوا ایک علم ہے جسے میں نہیں جانتا اور میرے پاس اللہ کا عطا کردہ ایک علم ہے جسے آپ نہیں جانتے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کیا میں اس شرط پر آپ کے پیچھے چلوں کہ آپ میری رہنمائی فرماتے ہوئے مجھے وہ بات سکھائیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھائی۔ حضرت خضر نے فرمایا آپ صبر نہیں کرسکیں گے اور اس چیز پر کیسے صبر کرسکیں گے جس کا آپ کی عقل احاطہ نہیں نہیں کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا عنقریب آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور میں آپ کی حکم عدولی نہیں کروں گا۔ حضرت خضر نے فرمایا اگر میری پیروی کرنا ہی چاہتے ہو تو جب تک کوئی بات میں خود نہ بیان کروں آپ مجھے نہیں پوچھیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ٹھیک ہے پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر دونوں ساحل پر چل رہے تھے کہ ایک کشتی ان کے پاس سے گذری، انہوں نے کہا کہ ہمیں بھی سوار کرلو انہوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور بغیر کرائے کے دونوں کو بٹھالیا۔ خضر علیہ السلام نے اس کشتی کا ایک تختہ اکھیڑ دیا۔ موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے ان لوگوں نے ہمیں بغیر کرائے کے سوار کیا اور آپ نے ان کی کشتی خراب کر دی اور اس میں سوراخ کر دیا تاکہ لوگ غرق ہو جائیں۔ آپ نے بڑی بھاری بات کی۔ وہ کہنے لگے میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکیں گے۔ موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے آپ میری بھول چوک پر میری گرفت نہ کیجئے اور اس معاملے میں مجھ پر زیادہ تنگی نہ ڈالئے، پھر وہ کشتی پر سے اتر کر ابھی ساحل پر چل رہے تھے کہ ایک بچہ بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے اس کا سر پکڑا اور اسے ہاتھ سے جھٹکا دے کر قتل کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے کہ آپ نے ایک بے گناہ قتل کر دیا۔ آپ نے بڑی بے جا حرکت کی۔ وہ کہنے لگے کہ میں نے کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ بات پہلی بات سے زیادہ تعجب خیز تھی۔ موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے کہ اگر اس کے بعد بھی میں آپ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کروں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھئے گا۔ آپ میری طرف سے عذر کو پہنچ چکے ہیں۔ پھر وہ دونوں چلے یہاں تک کہ ایک بستی کے پاس سے گذرے اور ان سے کھانے کے لئے کچھ مانگا تو انہوں نے ان کی مہمانی کرنے سے انکار کر دیا۔ اتنے میں وہاں انہیں ایک دیوار ملی جو گرنے ہی والی تھی۔ خضر علیہ السلام نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور وہ سیدھی ہوگئی۔ موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے کہ ہم ان لوگوں کے پاس آئے تو انہوں نے ہماری ضیافت تک نہیں کی اور ہمیں کھانا کھلانے سے بھی انکار کر دیا۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو اس کام کی اجرت لے سکتے تھے۔ وہ کہنے لگے یہ وقت ہماری اور آپ کی جدائی کا ہے۔ میں آپ کو ان چیزوں کی حقیقت بتا دیتا ہوں جن پر آپ صبر نہیں کرسکے۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہماری چاہت تھی کہ موسیٰ علیہ السلام (اللہ ان پر رحمت کرے) کچھ دیر اور صبر کرتے تاکہ ہمیں ان کی عجیب وغریب خبریں سننے کو ملتیں۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ نے پہلا سوال تو بھول کر کیا تھا پھر ایک چڑیا آئی جس نے کشتی کے کنارے پر بیٹھ کر دریا میں اپنی چونچ ڈبوئی، پھر حضرت خضرت علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا میرے اور آپ کے علم نے اللہ کے علم میں سے صرف اسی قدر کم کیا جتنا اس چڑیا نے دریا سے۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما یہ آیت اس قرأت میں پڑھتے تھے وَکَانَ أَمَامَهُمْ مَلِکٌ يَأْخُذُ کُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا اور یہ آیت اس طرح پڑھتے وَأَمَّا الْغُلَامُ فَکَانَ کَافِرًا۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے، اسے ااسحاق ہمدانی سعید بن جبیر سے وہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے وہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں۔ زہری بھی عبیداللہ سے وہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے وہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نقل کرتے ہیں۔ ابومزاحم سمرقندی کہتے ہیں کہ میں نے علی بن مدینی کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے ایک حج صرف اس نیت سے کیا کہ سفیان سے یہ حدیث سنوں وہ اس حدیث میں ایک چیز بیان کرتے تھے، چنانچہ انہوں نے عمرو بن دینا سے حدیث نقل کی جب کہ اس سے پہلے جب میں نے ان سے یہ حدیث سنی تو انہوں نے اس چیز کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔
Sa’eed ibn Jubayr said that he told Ibn Abbas (RA) that Nawf al-Bikali believed that Musa of the Banu Israel was not (the same as) Musa of Khidr, He replied, “The enemy of Allah lies.” Then he said that he had heard Ubayy ibn Ka’b say that he heard Allah’s Messenger (SAW) say: Musa stood up among the Banu Israel to deliver a sermon. He was asked, “Which of mankind is the most learned?” He said, “I am the most learned.” Allah admonished him for not attributing knowledge to Him (Allah). So Allah revealed to him, “A slave among My slaves at the meeting point of the two seas is more learned than you.” Musa said, “O Lord! How can I go to him?” He said to him, “Take a fish in your basket. Wherever you lose the fish – that is the place where he is” So he went with him went his servant he was Yusha’ ibn Nun Musa placed the fish in the basket and he and his servant departed. They walked till they came to a rock. Musa and his servant lied down there. The fish stirred within the basket and came out of it and dropped into the sea. Allah stopped the current of the water so that it was like a tunnel and there was a passage for the fish. For Musa and his servant it was strange. They departed walking the remainder of their day and their night, and the servant of Musa forgot to inform him. When it was morning, Musa said to his servant: "Bring us our breakfast, certainly we have encountered fatigue from this journey of ours.” (18:62) Indeed, Musa did not feel fatigued but only after they had gone past the place which they had been commanded to seek. The servant said: "Did you see when we took refuge on the rock, then I indeed forgot the fish – and none but Satan made me forget that I should speak of it – and it took its way into the sea; what a wonder!"(18:63) Musa said: "That is what we were seeking." (18: 64) “So they returned retracing their footsteps.” (18: 64) They both returned retracing their footsteps. Sufyan said that people imagine that at this rock lies the spring of life to which no dead thing is brought but it revives. The fish had been eaten partly but drops of; ter poured on it, it revived. So they retraced their footsteps till they were at the rock. They observed a man covered with a garment. Musa greeted him (with salaam). He asked, “is there (a greeting like) salaam on your land?’ He said, “I am Musa.” He asked, “Musa of Banu Israel?” He said, “Yes.” He said, “Musa, you have knowledge from Allah that Alalh taught you but He did not teach me. And, I possess knowledge from Allah that He taught me but did not teach you.” Musa pleaded: "May I follow you, so that you may teach me of what you have been taught of right judgment." (18:66) He said: "Surely you will not be able to bear with me patiently. And how can you have patience in that you have not encompassed in (your) knowledge?’ He said, “If Allah will you shall find me patient; and I shall not disobey you in any affair.” (18: 67-69) Khidr said in response to him: "If you follow me, question me not about anything until I muself mention it to you about it."(18: 70) He said, “Yes. So they – Khidr and Musa – departed walking along the coast, when a boat passed by them. They requested them to let them board it and they recognized Khidr and took them on board without any fare. Khidr pulled out a plank of the boat. Musa said to him, “These people took us in without fare but you damaged it with a hole that it may drown.” He added: "In order to drown its occupants. You have certainly done a grievous thing." (18: 71) He said: "Did I not say that you would not be able to bear with me patiently?" He (Musa) said: Reproach me not for what I forgot, and oppress me not in my affair distressingly." (18: 73) Then they came out of the boat. While they were walking along the coast, they came across a boy playing with other two lads. Khidr grabbed him by his head and jerked him by his hand and killed him. So, Musa said to him: "Have you slain an innocent person who has slain no one. Certainly you have done a horrible thing." (18: 74) He said reminding him: "Did I not say to you that you would not be able to bear with me patiently?" (18: 75) And, indeed, this was more severe than the first time. He (Musa) pleaded: If I question you about anything after this, keep not company with me; indeed you have received an excuse from me. ”So they departed until, when they came to the people of a township, they asked its people for food, but they refused to entertain them as guests. Then they found therein a wall about to fall down." (18: 76-77) That is, leaning down and Khidr gestured to it with his hand like this, "and so he set it up." (18:77) So, Musa protested, “A people to whom we came but they did not play host to us and did not serve us food.” And, also: if you had wished you could have taken a wage for it.” He (Khidr) said, “This is the parting between me and you. Now I will inform you the interpretation of that you were not able to bear patiently." (18: 77-78).
(Allah’s Messenger’s (SAW) narration continues 🙂 May Allah have mercy on Musa! We wish that Musa had shown patience until (Allah) described to us more about the two of them! The first – it was from Musa’s forgetfulness. Then a swallow came and sitting on the edge of the boat, dipped its beak in the sea. Khidr thereupon said to Musa, “My knowledge and your knowledge have not lessened Allah’s knowledge even so much as this sparrow has withdrawn from the sea.” Sa’eed ibn Jubayr said that Ibn Abbas (RA) recited: "And there was before them a king who seized every perfect boat forcibly." And he recited: "And as for the lad, he was a disbeliever."
[Ahmed 21167, Bukhari 74, Muslim 2380, Abu Dawud 4707]
