تفسیر سورت بنی اسرائیل
راوی: ابن ابی عمر , سفیان , مسعر , عاصم بن ابی نجود , زر بن حبیش
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مِسْعَرٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ قَالَ قُلْتُ لِحُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ أَصَلَّی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ قَالَ لَا قُلْتُ بَلَی قَالَ أَنْتَ تَقُولُ ذَاکَ يَا أَصْلَعُ بِمَ تَقُولُ ذَلِکَ قُلْتُ بِالْقُرْآنِ بَيْنِي وَبَيْنَکَ الْقُرْآنُ فَقَالَ حُذَيْفَةُ مَنْ احْتَجَّ بِالْقُرْآنِ فَقَدْ أَفْلَحَ قَالَ سُفْيَانُ يَقُولُ فَقَدْ احْتَجَّ وَرُبَّمَا قَالَ قَدْ فَلَجَ فَقَالَ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَی بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی قَالَ أَفَتُرَاهُ صَلَّی فِيهِ قُلْتُ لَا قَالَ لَوْ صَلَّی فِيهِ لَکُتِبَتْ عَلَيْکُمْ الصَّلَاةُ فِيهِ کَمَا کُتِبَتْ الصَّلَاةُ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ قَالَ حُذَيْفَةُ أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِدَابَّةٍ طَوِيلَةِ الظَّهْرِ مَمْدُودَةٍ هَکَذَا خَطْوُهُ مَدُّ بَصَرِهِ فَمَا زَايَلَا ظَهْرَ الْبُرَاقِ حَتَّی رَأَيَا الْجَنَّةَ وَالنَّارَ وَوَعْدَ الْآخِرَةِ أَجْمَعَ ثُمَّ رَجَعَا عَوْدَهُمَا عَلَی بَدْئِهِمَا قَالَ وَيَتَحَدَّثُونَ أَنَّهُ رَبَطَهُ لِمَ أَيَفِرُّ مِنْهُ وَإِنَّمَا سَخَّرَهُ لَهُ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
ابن ابی عمر، سفیان، مسعر، عاصم بن ابی نجود، حضرت زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں نے حذیفہ بن یمان سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں نماز پڑھی تھی۔ انہوں نے فرمایا نہیں۔ میں نے کہا کیوں نہیں۔ انہوں نے فرمایا گنجے تم ہاں کہتے ہو تو تمہاری کیا دلیل ہے؟ میں نے کہا قرآن۔ میرے اور تیرے درمیان قرآن ہے۔ حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جس نے قرآن سے دلیل لی وہ کامیاب ہوگیا۔ سفیان کہتے ہیں کہ کبھی راوی یہ بھی کہتے تھے کہ جس نے دلیل قرآن سے لی واقعی اس نے دلیل پیش کی پھر حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ آیت پڑھی (سُبْحٰنَ الَّذِيْ اَسْرٰى بِعَبْدِه لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَه ) 17۔ اسراء : 1) (وہ پاک ہے جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصی تک سیر کرائی۔ بنی اسرائیل، آیت) اور پوچھا کہ کیا اس میں کہیں ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں نماز پڑھی۔ وہ فرمانے لگے نہیں۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں نماز پڑھی ہوتی تو تم لوگوں پر بھی بیت المقدس میں نماز پڑھنا واجب ہو جاتا جیسے کہ مسجدِ حرام میں پڑھنا واجب ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک لمبی پیٹھ والا جانور لایا گیا اس کا قدم وہاں پڑتا جہاں اس کی نظر ہوتی اور پھر وہ دونوں جنت دوزخ اور آخرت کے متعلق ہونے والے وعدوں کی چیزیں دیکھنے تک اس کی پیٹھ سے نہیں اترے پھر واپس ہوئے۔ لوگ کہتے کہ انہوں نے اسے بیت المقدس میں باندھ دیا تھا۔ حالانکہ اس کی ضرورت نہیں تھی۔ کیا وہ بھاگ جاتا؟ جب کہ اسے عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مسخر کر دیا تھا۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Zirr ibn Hubaysh narrated: I asked Sayyidina Hudhayfah (RA) ibn Yaman whether Allah’s Messenger had offered salah in Bayt al-Maqdis He said, “No.” I said to him, “Yes, indeed” He remarked “You say that O Bald man, How do you say so?” I said “By the Qur’an. Between you and me is the Qur’an.” He said, “He who cites evidence from the Qur’an, indeed, prospers.” Sufyan narrated that the sub-narrator said (perhaps), “He has indeed given an argument” – or he said, “He has prospered.” Then Hudhayfah recited: "Glorified be He who carried His servant (Muhammad) by night from the Sacred Mosque (of Makkah) to the Remote Mosque (of Jerusalem)." (17: 1)
Then he asked, “Do you trump up from this that he offered salah there?” I said, “No.” He said, “If he had offered salah there then that would have become wajib on you to offer salah there just as it is wajib to offer salah in the Masjid al-Haram.” Hudhayfah said further that a long-backed animal was brought to Allah’s Messenger (SAW) . Its stride was as long as the reach of its sight. And both of them did not dismount from the Buraq’s back till they had seen Paradise and Hell and the promises of the Hereafter. Then it returned leaving both of them to where they had begun. He said, “People say that it was tied in Bayt al-Maqdis (though it was not necessary). Why? Would it have escaped? Indeed, the Knower of the unknown and the known had subjected it to him, (the Prophet).
