صحیح مسلم ۔ جلد سوم ۔ فضائل کا بیان ۔ حدیث 1622

بغیر ضرورت کے کثرت سے سوال کرنے کی ممانعت کے بیان میں

راوی: یوسف بن حماد عبدالاعلی سعید بن قتادہ , بن مالک

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْمَعْنِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ النَّاسَ سَأَلُوا نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی أَحْفَوْهُ بِالْمَسْأَلَةِ فَخَرَجَ ذَاتَ يَوْمٍ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ سَلُونِي لَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْئٍ إِلَّا بَيَّنْتُهُ لَکُمْ فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِکَ الْقَوْمُ أَرَمُّوا وَرَهِبُوا أَنْ يَکُونَ بَيْنَ يَدَيْ أَمْرٍ قَدْ حَضَرَ قَالَ أَنَسٌ فَجَعَلْتُ أَلْتَفِتُ يَمِينًا وَشِمَالًا فَإِذَا کُلُّ رَجُلٍ لَافٌّ رَأْسَهُ فِي ثَوْبِهِ يَبْکِي فَأَنْشَأَ رَجُلٌ مِنْ الْمَسْجِدِ کَانَ يُلَاحَی فَيُدْعَی لِغَيْرِ أَبِيهِ فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ مَنْ أَبِي قَالَ أَبُوکَ حُذَافَةُ ثُمَّ أَنْشَأَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا عَائِذًا بِاللَّهِ مِنْ سُوئِ الْفِتَنِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ أَرَ کَالْيَوْمِ قَطُّ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ إِنِّي صُوِّرَتْ لِي الْجَنَّةُ وَالنَّارُ فَرَأَيْتُهُمَا دُونَ هَذَا الْحَائِطِ

یوسف بن حماد عبدالاعلی سعید بن قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنا شروع کر دیا یہاں تک کہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنگ کر دیا تو ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور منبر پر چڑھ کر فرمایا کہ تم لوگ مجھ سے پوچھو اور جس چیز کے بارے میں پوچھو گے میں تمہیں بتا دوں گا جب لوگوں نے یہ سنا تو وہ خاموش ہو گئے اور اس بات سے ڈرنے لگے کہ کہیں کوئی بات تو پیش آنے والی نہیں ہے حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں نے دائیں بائیں دیکھا تو ہر آدمی اپنا منہ اپنے کپڑے میں لپیٹے رو رہا تھا بالاآخر مسجد کے ایک آدمی کہ جس سے لوگ جھگڑتے تھے اور اسے اس کے غیر باپ کی طرف منسوب کرتے تھے، میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرا باپ کون ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرا باپ حذیفہ ہے پھر حضرت عمر نے ہمت کر کے عرض کیا ہم اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہیں تمام برے فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے آج کے دن کی طرح کی بھلائی اور برائی کبھی نہیں دیکھی کیونکہ جنت اور دوزخ کو میرے سامنے لایا گیا اور میں نے اس دیوار کے کونے میں ان دونوں کو دیکھا ہے۔

Anas b. Malik reported that the people asked Allah's Apostle (may peace be upon him) until he was hard pressed. He went out one day and he occupied the pulpit and said: Ask me and I shall leave no question of yours unanswered for you, and when the people heard about it they were overawed, as if (something tragic) was going to happen. Anas said: I began to look towards the right and the left and (found) that every person was weeping wrapping his head with the cloth. Then a person in the mosque broke the ice and they used to dispute with him by attributing his fatherhood to another man than his own father. He said: Allah's Apostle, who is my father? He said: Your father is Hudhafa. Then 'Umar b. Khattab (Allah be pleased with him) dared say something and said: We are well pleased with Allah as our Lord, with Islam as our code of life and with Muhammad as our Messenger, seeking refuge with Allah from the evil of Turmoil. Thereupon Allah's Messenger (may peace be upon him) said: Never did I see the good and evil as today. Paradise and Hell were given a visible shape before me (in this worldly life) and I saw both of them near this well.

یہ حدیث شیئر کریں