سنن ابوداؤد ۔ جلد دوم ۔ جہاد کا بیان ۔ حدیث 999

دشمن سے صلح کرنے کا بیان

راوی: محمد بن عبید , محمد بن ثور , معمر , زہری , عروہ بن زبیر , مسور بن محزمہ

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ ثَوْرٍ حَدَّثَهُمْ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ قَالَ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةً مِنْ أَصْحَابِهِ حَتَّی إِذَا کَانُوا بِذِي الْحُلَيْفَةِ قَلَّدَ الْهَدْيَ وَأَشْعَرَهُ وَأَحْرَمَ بِالْعُمْرَةِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ قَالَ وَسَارَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی إِذَا کَانَ بِالثَّنِيَّةِ الَّتِي يَهْبِطُ عَلَيْهِمْ مِنْهَا بَرَکَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ فَقَالَ النَّاسُ حَلْ حَلْ خَلَأَتْ الْقَصْوَائُ مَرَّتَيْنِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا خَلَأَتْ وَمَا ذَلِکَ لَهَا بِخُلُقٍ وَلَکِنْ حَبَسَهَا حَابِسُ الْفِيلِ ثُمَّ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَسْأَلُونِي الْيَوْمَ خُطَّةً يُعَظِّمُونَ بِهَا حُرُمَاتِ اللَّهِ إِلَّا أَعْطَيْتُهُمْ إِيَّاهَا ثُمَّ زَجَرَهَا فَوَثَبَتْ فَعَدَلَ عَنْهُمْ حَتَّی نَزَلَ بِأَقْصَی الْحُدَيْبِيَةِ عَلَی ثَمَدٍ قَلِيلِ الْمَائِ فَجَائَهُ بُدَيْلُ بْنُ وَرْقَائَ الْخُزَاعِيُّ ثُمَّ أَتَاهُ يَعْنِي عُرْوَةَ بْنَ مَسْعُودٍ فَجَعَلَ يُکَلِّمُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَکُلَّمَا کَلَّمَهُ أَخَذَ بِلِحْيَتِهِ والْمُغِيَرةُ بْنُ شُعْبَةَ قَائِمٌ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ السَّيْفُ وَعَلَيْهِ الْمِغْفَرُ فَضَرَبَ يَدَهُ بِنَعْلِ السَّيْفِ وَقَالَ أَخِّرْ يَدَکَ عَنْ لِحْيَتِهِ فَرَفَعَ عُرْوَةُ رَأْسَهُ فَقَالَ مَنْ هَذَا قَالُوا الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فَقَالَ أَيْ غُدَرُ أَوَلَسْتُ أَسْعَی فِي غَدْرَتِکَ وَکَانَ الْمُغِيرَةُ صَحِبَ قَوْمًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقَتَلَهُمْ وَأَخَذَ أَمْوَالَهُمْ ثُمَّ جَائَ فَأَسْلَمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا الْإِسْلَامُ فَقَدْ قَبِلْنَا وَأَمَّا الْمَالُ فَإِنَّهُ مَالُ غَدْرٍ لَا حَاجَةَ لَنَا فِيهِ فَذَکَرَ الْحَدِيثَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اکْتُبْ هَذَا مَا قَاضَی عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَقَصَّ الْخَبَرَ فَقَالَ سُهَيْلٌ وَعَلَی أَنَّهُ لَا يَأْتِيکَ مِنَّا رَجُلٌ وَإِنْ کَانَ عَلَی دِينِکَ إِلَّا رَدَدْتَهُ إِلَيْنَا فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَضِيَّةِ الْکِتَابِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ قُومُوا فَانْحَرُوا ثُمَّ احْلِقُوا ثُمَّ جَائَ نِسْوَةٌ مُؤْمِنَاتٌ مُهَاجِرَاتٌ الْآيَةَ فَنَهَاهُمْ اللَّهُ أَنْ يَرُدُّوهُنَّ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَرُدُّوا الصَّدَاقَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَی الْمَدِينَةِ فَجَائَهُ أَبُو بَصِيرٍ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ يَعْنِي فَأَرْسَلُوا فِي طَلَبِهِ فَدَفَعَهُ إِلَی الرَّجُلَيْنِ فَخَرَجَا بِهِ حَتَّی إِذْ بَلَغَا ذَا الْحُلَيْفَةِ نَزَلُوا يَأْکُلُونَ مِنْ تَمْرٍ لَهُمْ فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ لِأَحَدِ الرَّجُلَيْنِ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَی سَيْفَکَ هَذَا يَا فُلَانُ جَيِّدًا فَاسْتَلَّهُ الْآخَرُ فَقَالَ أَجَلْ قَدْ جَرَّبْتُ بِهِ فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْهِ فَأَمْکَنَهُ مِنْهُ فَضَرَبَهُ حَتَّی بَرَدَ وَفَرَّ الْآخَرُ حَتَّی أَتَی الْمَدِينَةَ فَدَخَلَ الْمَسجِدَ يَعْدُو فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ رَأَی هَذَا ذُعْرًا فَقَالَ قَدْ قُتِلَ وَاللَّهِ صَاحِبِي وَإِنِّي لَمَقْتُولٌ فَجَائَ أَبُو بَصِيرٍ فَقَالَ قَدْ أَوْفَی اللَّهُ ذِمَّتَکَ فَقَدْ رَدَدْتَنِي إِلَيْهِمْ ثُمَّ نَجَّانِي اللَّهُ مِنْهُمْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيْلَ أُمِّهِ مِسْعَرَ حَرْبٍ لَوْ کَانَ لَهُ أَحَدٌ فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِکَ عَرَفَ أَنَّهُ سَيَرُدُّهُ إِلَيْهِمْ فَخَرَجَ حَتَّی أَتَی سَيْفَ الْبَحْرِ وَيَنْفَلِتُ أَبُو جَنْدَلٍ فَلَحِقَ بِأَبِي بَصِيرٍ حَتَّی اجْتَمَعَتْ مِنْهُمْ عِصَابَةٌ

محمد بن عبید، محمد بن ثور، معمر، زہری، عروہ بن زبیر، حضرت مسور بن محزمہ سے روایت ہے کہ حدیبیہ کے زمانہ میں (یعنی جس سال صلح حدیبیہ ہوئی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چند ہزار اصحاب کے ساتھ نکلے۔ جب آپ ذوالحلیفہ میں پہنچے تو قربانی کے جانور کے گلے میں قلادہ باندھا اور اشعار کیا اور عمرہ کا احرام باندھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے روانہ ہوئے یہاں تک کہ ثنیہ پر پہنچے جہاں سے مکہ میں داخل ہونے کے لئے اترتے ہیں تو آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر بیٹھ گئی لوگوں نے حل حل کہا (یہ کلمہ اونٹ کو کھڑا کرنے کے لئے بولتے ہیں) لیکن آپ کی اونٹنی جس کا نام قصوی تھا اڑ گئی دو مرتبہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قصوی نے اڑ نہیں کی اور نہ ہی اڑنے کی اس کی عادت ہے مگر اس کو ہاتھی کے روکنے والے نے روک دیا۔ (یعنی اللہ تعالیٰ نے) پھر آپ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ آج کے دن قریش مجھ سے جو چیز بھی طلب کریں گے جس میں اللہ تعالیٰ کے حرم کی تعظیم ہوگی میں ان کو وہی چیز دوں گا۔ پھر آپ نے اونٹنی کو اٹھایا تو وہ اٹھ گئی اور آپ اہل مکہ کی راہ سے ہٹ کر حدیبیہ کی طرف متوجہ ہوئے یہاں تک کہ حدیبیہ کے انتہاء پر میدان میں ایک جگہ پر جہاں ایک گڑھے میں تھوڑا سا پانی جمع تھا آپ وہاں پر جا اترے۔ پہلے آپ کے پاس بدیل بن ورقاء خزاعی آیا پھر عروہ بن مسعود لقنی آیا اور آپ سے گفتگو کرنے لگا۔ دوران گفتگو عروہ بار بار آپ کی ریش مبارک کو ہاتھ لگا رہا تھا۔ مغیرہ بن شعبہ جو آنحضرت کے پاس تلوار لئے ہوئے کھڑے تھے اور خود (لوہے کی ٹوپی) پہنے ہوئے تھے۔ انہوں نے عروہ کے ہاتھ پر تلور کی کو تھی ماری اور کہا آپ کی ریش مبارک سے اپنا ہاتھ دور رکھ۔ عروہ نے سر اٹھا کر پوچھا یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا مغیرہ بن شعبہ! عروہ نے کہا اے مکار! کیا میں نے تیری عہد شکنی کی اصلاح میں کوشش نہیں کی؟ اس کا قصہ یوں ہے کہ زمانہ جاہلیت میں مغیرہ بن شعبہ چند لوگوں کے ساتھ گئے اور پھر ان کو قتل کر ڈالا۔ اور ان کا مال واسباب لوٹ لیا پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ آپ نے فرمایا ہم نے اسلام تو قبول کر لیا مگر اس مال کی ہمیں ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ مکر و فریب سے حاصل کیا ہوا مال ہے۔ اس کے بعد حدیث کے راوی مسودہ نے آخر تک حدیث بیان کی۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا لکھو یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر رسول اللہ نے فیصلہ کیا ہے۔ پھر سب قصہ بیان کیا۔ سہیل نے کہا کہ اور جو کوئی شخص قریش میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اگرچہ وہ مسلمان ہو کر ہی کیوں نہ آئے تو آپ اس کو لوٹا دیں گے۔ جب آپ صلح نامہ کی تحریر سے فارغ ہو گئے تو اپنے اصحاب سے فرمایا اٹھو! اپنے قربانی کے جانور ذبح کر ڈالو اور اس کے بعد سر منڈادو۔ اس کے بعد مکہ کی چند عورتیں مسلمان ہو کر ہجرت کر کے مسلمانوں کے پاس آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو لوٹانے سے منع فرما دیا (کیونکہ واپس لوٹانے کی شرط مردوں کے ساتھ خاص تھی) اور ان کے کافر شوہروں نے ان کو جو مہر دیا تھا وہ ان کو واپس کروا دیا۔ پھر آپ مدینہ میں تشریف لائے تو قریش کا ایک شخص جس کا نام ابوبصیر تھا آپ کے پاس (مسلمان ہو کر) آیا۔ قریش نے اس کو واپس طلب کرنے کے لئے دو آدمی بھیجے۔ آپ نے ابوبصیر کو (معاہدہ کی شرط کے مطابق) ان کے ساتھ واپس کر دیا۔ وہ اس کو ساتھ لے کر نکلے۔ جب ذوالحلیفہ میں پہنچے تو اتر کر کھجوریں کھانے لگے۔ ابوبصیر نے ان دونوں کی تلوار دیکھ کر کہا کہ واللہ تمہاری یہ تلوار بہت عمدہ معلوم ہوتی ہے۔ اس نے میان سے تلوار نکال کر کہا ہاں میں اس کو آزما چکا ہوں۔ ابوبصیر نے کہا ذرا میں بھی تو دیکھوں؟ اس نے دے دی۔ ابوبصیر نے اسی تلوار سے اس کے مالک کو مارا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا۔ یہ منظر دیکھ کر اس کا دوسرا ساتھی بھاگ کھڑا ہوا اور مدینہ پہنچ کر جلدی سے مسجد نبوی میں گھس گیا۔ آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا یہ ڈرگیا ہے۔ وہ بولا میرا ساتھی مارا گیا ہے اور اب میں بھی مارا جاؤں گا۔ اتنے میں ابوبصیر بھی آن پہنچا اور بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ نے اپنا عہد پورا کر دیا کہ آپ نے مجھے کافروں کے حوالہ کر دیا پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دی۔ آپ نے فرمایا لڑائی کا بھڑکانے والا ہے اگر اس کا کوئی ساتھی ہوتا۔ ابوبصیر نے جب یہ سنا تو سمجھ گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے پھر کافروں کے حوالہ کر دیں گے پس وہ نکل کھڑا ہوا اور دریا کے کنارے پر آ ٹکا اور ابوجندل (جو کہ سہیل کا بیٹا تھا جس نے صلح کرائی تھی وہ مسلمان ہوگیا تھا اور صلح کے بعد آپ کے پاس آیا تھا لیکن آپ نے شرط کے بموجب اس کو بھی واپس کر دیا تھا) وہ بھی ابوبصیر کے ساتھ مل گیا یہاں تک کہ مسلمانوں کی ایک جماعت وہاں جمع ہو گئی۔

یہ حدیث شیئر کریں