قیدی کو مضبوط باندھا جائے یا نہیں
راوی: عیسی بن حماد , قتیبہ , لیث ابن سعد , سعید بن ابی سعید , ابوہریرہ
حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ حَمَّادٍ الْمِصْرِيُّ وَقُتَيْبَةُ قَالَ قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْلًا قِبَلَ نَجْدٍ فَجَائَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ يُقَالُ لَهُ ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ سَيِّدُ أَهْلِ الْيَمَامَةِ فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ فَخَرَجَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَاذَا عِنْدَکَ يَا ثُمَامَةُ قَالَ عِنْدِي يَا مُحَمَّدُ خَيْرٌ إِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَی شَاکِرٍ وَإِنْ کُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْهُ مَا شِئْتَ فَتَرَکَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی إِذَا کَانَ الْغَدُ ثُمَّ قَالَ لَهُ مَا عِنْدَکَ يَا ثُمَامَةُ فَأَعَادَ مِثْلَ هَذَا الْکَلَامِ فَتَرَکَهُ حَتَّی کَانَ بَعْدَ الْغَدِ فَذَکَرَ مِثْلَ هَذَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَطْلِقُوا ثُمَامَةَ فَانْطَلَقَ إِلَی نَخْلٍ قَرِيبٍ مِنْ الْمَسْجِدِ فَاغْتَسَلَ فِيهِ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَسَاقَ الْحَدِيثَ قَالَ عِيسَی أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ وَقَالَ ذَا ذِمٍّ
عیسی بن حماد، قتیبہ، لیث ابن سعد، سعید بن ابی سعید، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لشکر نجد کی طرف بھیجا تو لشکر کے لوگ بنی حنیفہ میں سے ایک شخض کو پکڑ لائے جس کو ثمامہ بن اثال کہا جاتا تھا اور وہ اہل یمامہ کا سردار تھا۔ پس لوگوں نے اس کو مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی طرف تشریف لے گئے اور پوچھا اے ثمامہ تیرے پاس کیا ہے (یعنی تیرے دل میں کیا ہے؟ اسلام کی رغبت یا کفر کی محبت؟ اس نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے پاس خیر ہے (یعنی میرے دل میں اسلام کی طرف رغبت ہے)۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ کو قتل کریں گے تو ایک خون والے کو قتل کریں گے۔ (یعنی قتل کے مستحق کو قتل کریں گے) اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ پر احسان کریں گے تو ایک احسان شناس پر احسان کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مال چاہتے ہیں توطلب کیجئے وہ مل جائے گا جس قدر چاہیں گے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو چھوڑ دیا (تا کہ اس کے دل میں اسلام کی طرف میلان ہو) جب دوسرا دن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پھر پوچھا کہ اے ثمامہ تیرے پاس کیا ہے؟ تو اس نے بھی پہلے والا ہی جواب دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو پھر رہنے دیا (یعنی اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا) یہاں تک کہ تیسرا دن ہوا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ثمامہ کو چھوڑ دو پس ثمامہ مسجد کے پاس کھجوروں کے درختوں کے جھنڈ میں گیا اور غسل کیا پھر مسجد میں آیا اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ پھر بیان کیا اخیر تک۔ عیسیٰ نے کہا لیث کی روایت میں (بجائے ذا دم کے) ذا ذم ہے۔
