صحیح مسلم ۔ جلد سوم ۔ پینے کی چیزوں کا بیان ۔ حدیث 869

مہمان کا اکرام اور ایثار کی فضیلت کے بیان میں

راوی: محمد بن مثنی , سالم بن نوح عطار جریری , ابوعثمان , عبدالرحمن بن ابوبکر , عبدالرحمن بن ابی ابکر

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ الْعَطَّارُ عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ قَالَ نَزَلَ عَلَيْنَا أَضْيَافٌ لَنَا قَالَ وَکَانَ أَبِي يَتَحَدَّثُ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ اللَّيْلِ قَالَ فَانْطَلَقَ وَقَالَ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ افْرُغْ مِنْ أَضْيَافِکَ قَالَ فَلَمَّا أَمْسَيْتُ جِئْنَا بِقِرَاهُمْ قَالَ فَأَبَوْا فَقَالُوا حَتَّی يَجِيئَ أَبُو مَنْزِلِنَا فَيَطْعَمَ مَعَنَا قَالَ فَقُلْتُ لَهُمْ إِنَّهُ رَجُلٌ حَدِيدٌ وَإِنَّکُمْ إِنْ لَمْ تَفْعَلُوا خِفْتُ أَنْ يُصِيبَنِي مِنْهُ أَذًی قَالَ فَأَبَوْا فَلَمَّا جَائَ لَمْ يَبْدَأْ بِشَيْئٍ أَوَّلَ مِنْهُمْ فَقَالَ أَفَرَغْتُمْ مِنْ أَضْيَافِکُمْ قَالَ قَالُوا لَا وَاللَّهِ مَا فَرَغْنَا قَالَ أَلَمْ آمُرْ عَبْدَ الرَّحْمَنِ قَالَ وَتَنَحَّيْتُ عَنْهُ فَقَالَ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ قَالَ فَتَنَحَّيْتُ قَالَ فَقَالَ يَا غُنْثَرُ أَقْسَمْتُ عَلَيْکَ إِنْ کُنْتَ تَسْمَعُ صَوْتِي إِلَّا جِئْتَ قَالَ فَجِئْتُ فَقُلْتُ وَاللَّهِ مَا لِي ذَنْبٌ هَؤُلَائِ أَضْيَافُکَ فَسَلْهُمْ قَدْ أَتَيْتُهُمْ بِقِرَاهُمْ فَأَبَوْا أَنْ يَطْعَمُوا حَتَّی تَجِيئَ قَالَ فَقَالَ مَا لَکُمْ أَنْ لَا تَقْبَلُوا عَنَّا قِرَاکُمْ قَالَ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ فَوَاللَّهِ لَا أَطْعَمُهُ اللَّيْلَةَ قَالَ فَقَالُوا فَوَاللَّهِ لَا نَطْعَمُهُ حَتَّی تَطْعَمَهُ قَالَ فَمَا رَأَيْتُ کَالشَّرِّ کَاللَّيْلَةِ قَطُّ وَيْلَکُمْ مَا لَکُمْ أَنْ لَا تَقْبَلُوا عَنَّا قِرَاکُمْ قَالَ ثُمَّ قَالَ أَمَّا الْأُولَی فَمِنْ الشَّيْطَانِ هَلُمُّوا قِرَاکُمْ قَالَ فَجِيئَ بِالطَّعَامِ فَسَمَّی فَأَکَلَ وَأَکَلُوا قَالَ فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَرُّوا وَحَنِثْتُ قَالَ فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ بَلْ أَنْتَ أَبَرُّهُمْ وَأَخْيَرُهُمْ قَالَ وَلَمْ تَبْلُغْنِي کَفَّارَةٌ

محمد بن مثنی، سالم بن نوح عطار جریری، ابوعثمان، عبدالرحمن بن ابوبکر، حضرت عبدالرحمن بن ابی ابکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ مہمان آئے اور میرے والد رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باتیں کیا کرتے تھے۔ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ وہ یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ اے عبدالرحمن! مہمانوں کی خبرگیری کرنا۔ راوی کہتے ہیں کہ جب شام ہوئی تو ہم مہمانوں کے سامنے کھانا لے کر آئے تو انہوں نے کھانے سے انکار کردیا اور کہنے لگے کہ جب تک گھر والے ہمارے ساتھ کھانا نہیں کھائیں گے اس وقت تک ہم کھانا نہیں کھائیں گے۔ میں نے کہا میرے والد سخت مزاج آدمی ہیں اگر تم کھانا نہیں کھاؤں گے تو مجھے خطرہ ہے کہ کہیں مجھے ان سے کوئی تکلیف نہ اٹھانی پڑ جائے(لیکن اس کے باوجود) مہمانوں نے کھانا کھانے سے انکار کردیا تو جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو انہوں نے سب سے پہلے مہمانوں ہی کے بارے میں پوچھا اور فرمایا کیا تم اپنے مہمانوں سے فارغ ہو گئے ہو؟ راوی کہتے ہیں انہوں نے عرض کیا نہیں اللہ کی قسم ! ابھی ہم فارغ نہیں ہوئے حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں ایک طرف ہوگیا (یعنی چھپ گیا) انہوں نے (آواز دے کر) کہا اے عبدالرحمن میں اس طرف سے ہٹ گیا (یعنی چھپ گیا) پھر انہوں نے فرمایا او نالائق! میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ اگر تو میری آواز سن رہا ہے تو آجا۔ حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ پھر میں آگیا اور میں نے عرض کیا اللہ کی قسم !میرا کوئی گناہ نہیں یہ آپ کے مہمان موجود ہیں آپ ان سے (خود) پوچھ لیں میں نے ان کے سامنے کھانا لا کر رکھ دیا تھا انہوں نے آپ کے بغیر کھانا کھانے سے انکار کردیا تھا حضرت ابوبکر نے ان مہمانوں سے فرمایا تمہیں کیا ہوا کہ تم نے ہمارا کھانا قبول نہیں کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (یہ کہہ کر) فرمانے لگے اللہ کی قسم! میں آج رات کھانا نہیں کھاؤں گا۔ مہمانوں نے کہا اللہ کی قسم! ہم بھی اس وقت تک کھانا نہیں کھائیں گے جب تک کہ آپ کھانا نہیں کھائیں گے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نے آج کی رات کی طرح بدترین رات کبھی نہیں دیکھی تم پر افسوس ہے کہ تم لوگ ہماری مہمان نوازی کیوں نہیں قبول کرتے۔ (پھر کچھ دیر بعد) حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میرا قسم کھانا شیطانی فعل تھا چلو لاؤ کھانا لاؤ۔ چنانچہ کھانا لایا گیا آپ نے اللہ کا نام لے کر (یعنی بسم اللہ پڑھ کر) کھانا کھایا اور مہمانوں نے بھی کھانا کھایا پھر جب صبح ہوئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول! مہمانوں کی قسم پوری ہوگئی اور میری جھوٹی اور یہ کہ سارے واقعہ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ تمہاری قسم تو سب سے زیادہ پوری ہوئی ہے اور تم سب سے زیادہ سچے ہو۔ حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات نہیں پہنچی کہ انہوں نے (قسم کا کفارہ ادا کیا تھا یا نہیں)۔

'Abd al-Rahman b. Abu Bakr reported: There came to our house some guests. It was a common practice with my father to (go) and talk to Allah's Messenger (may peace be upon him) during the night. While going he said: 'Abd al-Rahman, entertain the guests. When it was evening we served the food to them, but they refused saying: So long as the owner of the house does not come and join us, we would not take the meal. I said to them: He ('Abu Bakr) is a stern person, and if you would not do that (if you do not take the food), I fear, I may be harmed by him, but they refused. As he (my father) came, the first thing he asked was: Have you served the guests? They (the people of the household) said: We have not served them so far. He said: Did I not command 'Abd al-Rahman (to do this)? He ('Abd al-Rahman) said: I sunk away and kept myself away by that time. He again said: O stupid fellow, I ask you on oath that in case you hear my voice you come to me. I came and said: By Allah, there is no fault of mine. These are your guests; you may ask them. I provided them with food but they refused to eat until you came. He said to them: Why is it that you did not accept our food? By Allah, I shall not even take food tonight (as you have not taken). They said: By Allah, we would not take until you join us. Thereupon he Abu Bakr said: I have never seen a more unfortunate night than this. Woe be to thee! that you do not accept from us food prepared for you. He again said: What I did first (that is the taking of vow for not eating the food) was prompted by the Satan. Bring the food. The food was brought, and he ate by reciting the name of Allah and they also ate, and when it was morning he came to Allah's Apostle (may peace be upon him) and said: Allah's Messenger, their oath (that of the guests) came to be true, but mine was not true, and after that he informed him of the whole incident. He said: Your oath came to be the most true and you are the best of them. He (the narrator) said. I do not know whether he made an atonement for it.

یہ حدیث شیئر کریں