یوم الترویہ (آٹھ ذوالحجہ) سے پہلے خطبہ دینا
راوی: اسحق بن ابراہیم , علی بن قرة موسیٰ بن طارق , ابن جریج , عبداللہ بن عثمان بن خثیم , ابوزبیر , جابر
أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ قَرَأْتُ عَلَی أَبِي قُرَّةَ مُوسَی بْنِ طَارِقٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَجَعَ مِنْ عُمْرَةِ الْجِعِرَّانَةِ بَعَثَ أَبَا بَکْرٍ عَلَی الْحَجِّ فَأَقْبَلْنَا مَعَهُ حَتَّی إِذَا کَانَ بِالْعَرْجِ ثَوَّبَ بِالصُّبْحِ ثُمَّ اسْتَوَی لِيُکَبِّرَ فَسَمِعَ الرَّغْوَةَ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَوَقَفَ عَلَی التَّکْبِيرِ فَقَالَ هَذِهِ رَغْوَةُ نَاقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجَدْعَائِ لَقَدْ بَدَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَجِّ فَلَعَلَّهُ أَنْ يَکُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنُصَلِّيَ مَعَهُ فَإِذَا عَلِيٌّ عَلَيْهَا فَقَالَ لَهُ أَبُو بَکْرٍ أَمِيرٌ أَمْ رَسُولٌ قَالَ لَا بَلْ رَسُولٌ أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَرَائَةَ أَقْرَؤُهَا عَلَی النَّاسِ فِي مَوَاقِفِ الْحَجِّ فَقَدِمْنَا مَکَّةَ فَلَمَّا کَانَ قَبْلَ التَّرْوِيَةِ بِيَوْمٍ قَامَ أَبُو بَکْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَدَّثَهُمْ عَنْ مَنَاسِکِهِمْ حَتَّی إِذَا فَرَغَ قَامَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَرَأَ عَلَی النَّاسِ بَرَائَةٌ حَتَّی خَتَمَهَا ثُمَّ خَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّی إِذَا کَانَ يَوْمُ عَرَفَةَ قَامَ أَبُو بَکْرٍ فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَدَّثَهُمْ عَنْ مَنَاسِکِهِمْ حَتَّی إِذَا فَرَغَ قَامَ عَلِيٌّ فَقَرَأَ عَلَی النَّاسِ بَرَائَةٌ حَتَّی خَتَمَهَا ثُمَّ کَانَ يَوْمُ النَّحْرِ فَأَفَضْنَا فَلَمَّا رَجَعَ أَبُو بَکْرٍ خَطَبَ النَّاسَ فَحَدَّثَهُمْ عَنْ إِفَاضَتِهِمْ وَعَنْ نَحْرِهِمْ وَعَنْ مَنَاسِکِهِمْ فَلَمَّا فَرَغَ قَامَ عَلِيٌّ فَقَرَأَ عَلَی النَّاسِ بَرَائَةٌ حَتَّی خَتَمَهَا فَلَمَّا کَانَ يَوْمُ النَّفْرِ الْأَوَّلُ قَامَ أَبُو بَکْرٍ فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَدَّثَهُمْ کَيْفَ يَنْفِرُونَ وَکَيْفَ يَرْمُونَ فَعَلَّمَهُمْ مَنَاسِکَهُمْ فَلَمَّا فَرَغَ قَامَ عَلِيٌّ فَقَرَأَ بَرَائَةٌ عَلَی النَّاسِ حَتَّی خَتَمَهَا قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ ابْنُ خُثَيْمٍ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ وَإِنَّمَا أَخْرَجْتُ هَذَا لِئَلَّا يُجْعَلَ ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ وَمَا کَتَبْنَاهُ إِلَّا عَنْ إِسْحَقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ وَيَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ لَمْ يَتْرُکْ حَدِيثَ ابْنِ خُثَيْمٍ وَلَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِلَّا أَنَّ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ قَالَ ابْنُ خُثَيْمٍ مُنْکَرُ الْحَدِيثِ وَکَأَنَّ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ خُلِقَ لِلْحَدِيثِ
اسحاق بن ابراہیم، علی بن قرة موسیٰ بن طارق، ابن جریج، عبداللہ بن عثمان بن خثیم، ابوزبیر، جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس وقت جعرانہ والے عمرہ سے تشریف لائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیر حج بنا کر روانہ فرمایا ہم لوگ بھی ان کے ساتھ ساتھ چل دئیے۔ جس وقت ہم لوگ عرج نامی جگہ پر پہنچے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (فجر سے قبل کی) دو سنتیں ادا فرمائیں اور نماز کی تکبیر پڑھنے کے واسطے کھڑے ہوئے تو پیچھے سے اونٹ کی آواز سنی۔ یہ سن کر وہ لوگ اس جگہ ٹھہر گئے اور فرمایا کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی (مبارک) اونٹنی جدعاء (نام اونٹنی کا) کی آواز ہے یہ ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی حج کے واسطے تشریف لانے کا ارادہ فرما لیا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہوں اس وجہ سے ہو سکتا ہے کہ ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی نماز ادا کریں اس دوران حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم امیر بن کر آئے ہو یا کوئی پیغام بھی لائے ہو۔ وہ فرمانے لگے پیغام لے کر حاضر ہوا ہوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ کو حج کے اجتماع میں سورت برأت کی تلاوت کرنے کے واسطے روانہ فرمایا ہے چنانچہ جس وقت ہم لوگ مکہ مکرمہ پہنچ گئے تو ترویہ کے دن (یعنی ذی الحجہ) سے ایک دن قبل حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہو کر لوگوں سے خطاب کیا اور ان کو مناسک حج بتلائے جس وقت وہ فارغ ہو گئے تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہو گئے اور سورت برأت کے شروع سے لے کر آخر تک تلاوت فرمائی اس کے بعد ہم لوگ ان کے ساتھ آئے یہاں تک کہ عرفات والے دن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہو کر خطاب کیا اور لوگوں کو حج کے ارکان سکھلائے جب فارغ ہو گئے تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورت برأت کی تلاوت کی اور اس کو مکمل فرمایا پھر قربانی کے دن جس وقت ہم لوگ طواف زیارت کر کے واپس آئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر خطبہ پڑھا اور لوگوں کو طواف زیارت قربانی اور مناسک حج بتلائے کہ جس وقت فارغ ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہو کر سورت برأت تلاوت فرمائی پھر جس روز واپس جانے کا دن تھا اس روز بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطاب کیا اور واپس آنے کا طریقہ اور حج کے مناسک بیان کئے جس وقت فارغ ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہوکر مکمل سورہ برأت تلاوت فرمائی۔
It was narrated from Jabir that when the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم came back from the ‘Umrah of Al Ji’rranah, he sent Abu Bakr to lead the Hajj. We went with him until, when he was in Al-’Urj, the Iqarnah for Subh was said, and he stood up to say the Takbir while he heard the grunting of a camel behind him, and he did not say the Takbir. He said: “This is the grunting of the camel of the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم perhaps the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم has had second thoughts about the Hajj, and maybe he is here, and we will pray with him.” But it was ‘Ali on the camel. Abu Bakr said to him: “(Have you come) as a leader or as a messenger?” He said: “No, as a messenger, sent by the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم with a declaration of innocence to recite it to the people in the stations of Hajj. So we came to Makkah and one day before the day of At-Tam’iyah Abu Bakr, may Allah be pleased with him, stood up and addressed the people, telling them about their rituals. When he finished, ‘All, may Allah be pleased with him, stood up and recited the declaration of innocence to the people until he finished it. Then we went out with him and on the day of Arafat. Abu Bakr stood up and addressed the people, telling them about their rituals. When he finished, ‘All, may Allah be pleased with him, stood up and recited the declaration of innocence to the people until he finished it. Then on the day of Sacrifice, we departed (Ifddah) and when Abu Bakr came back, he addressed the people, telling them about their departure (Ifadah), sacrifice and rituals. When he finished, ‘All, may Allah be pleased with him, stood up and recited declaration of innocence to the people until he finished it. On the first day of An-Nafr (the th of Dhul- Abu Bakr stood up and addressed the people, telling them how to offer their sacrifice and how to stone the Jamarat, and teaching them their rituals. When he had finished, “Ali, may Allah be pleased with him, stood up and recited the declaration of innocence to the people until he finished it. (Da’if)
Abu ‘Abdur-Rahman (An-Nasa’i) said: Ibn Khuthaim is not strong in Hadith, and I only narrated this so it would not be considered to be from Ibn Juraij from Abu Az Zubair. And we did not write it except from Is bin Rahflyah bin Ibrahim. And Yahya bin Saeed Al Qattan did not abandon the narrations of Ibn Khuthaim, or did ‘Abdur-Rahman. However, ‘Ali bin Al-Madini said: “lbn Khuthaim is Munkar in Hadith,” and ‘Ali bin Al-MadInl is more knowledgeable of Hadith.
