باب (نیو انٹری)
راوی:
سُورَةُ لَا أُقْسِمُ وَقَالَ مُجَاهِدٌ وَأَنْتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ بِمَكَّةَ لَيْسَ عَلَيْكَ مَا عَلَى النَّاسِ فِيهِ مِنْ الْإِثْمِ وَوَالِدٍ آدَمَ وَمَا وَلَدَ لُبَدًا كَثِيرًا وَ النَّجْدَيْنِ الْخَيْرُ وَالشَّرُّ مَسْغَبَةٍ مَجَاعَةٍ مَتْرَبَةٍ السَّاقِطُ فِي التُّرَابِ يُقَالُ فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ فَلَمْ يَقْتَحِمْ الْعَقَبَةَ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ فَسَّرَ الْعَقَبَةَ فَقَالَ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ فَكُّ رَقَبَةٍ أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ
تفسیر سورة”لااقسم “!
مجاہد نے کہا ”بھذا البد“ سے مراد مکہ ہے ‘یعنی تم پر وہ گناہ نہیں جو دوسروں پر ہے ”ووالد سے آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد مراد ہے ‘ ”لبدا“ بمعنی کثیر ” نجدین “ سے مراد خیر وشر ”مسغبہ “ بھوک ”مقرنة “ مٹی میں گرا ہوا کہا جاتا ہے کہ ”فلا اقتحم العقبہ “ معنی یہ ہیں کہ دنیا میں دشوار گزار گھاٹی میں داخل نہ ہوا‘ پھر اللہ تعالیٰ نے گھاٹی (عقبہ ) کی تفسیر کی ‘ اور کہا کہ تمہیں کس چیز نے بتایا کہ” عقبہ “ کیا ہے وہ غلام کا آزاد کرنا‘ یا بھوک کی حالت میں کھانا کھلا ناہے ۔
