صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 2165

باب (نیو انٹری)

راوی:

سُورَةُ هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ النَّصَارَى وَقَالَ مُجَاهِدٌ عَيْنٍ آنِيَةٍ بَلَغَ إِنَاهَا وَحَانَ شُرْبُهَا حَمِيمٍ آنٍ بَلَغَ إِنَاهُ لَا تَسْمَعُ فِيهَا لَاغِيَةً شَتْمًا وَيُقَالُ الضَّرِيعُ نَبْتٌ يُقَالُ لَهُ الشِّبْرِقُ يُسَمِّيهِ أَهْلُ الْحِجَازِ الضَّرِيعَ إِذَا يَبِسَ وَهُوَ سُمٌّ بِمُسَيْطِرٍ بِمُسَلَّطٍ وَيُقْرَأُ بِالصَّادِ وَالسِّينِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ إِيَابَهُمْ مَرْجِعَهُمْ

تفسیر سورہ غاشیہ !
اور ابن عباس نے کہا ”عاملتہ ناصبة “(کام کرنے والے تھکے ہوئے ) مراد نصاری ہیں اور مجاہد نے ”عین انیة سے بہت گرم اور لباب بھرا ہوا چشمہ مراد لیا ہے ”حمیم ان “ اس کے برتن بھرے ہوئے ہوں گے ”لا یسمع فیھا لا غیہ “ لاغیہ سے مراد گالی گلوچ ہے ”ضریع“ایک گھانس ہے جسے شرق کہتے ہیں‘ جب خشک ہوجائے تو اہل حجاز اسے ضریع کہتے ہیں‘ اور یہ ایک زہر ہے مسیطر بمعنے ”مسلط“سے صاد اور سین دونوں سے پڑھاجاتا ہے ‘ اور ابن عباس نے کہا ”ایا بھم “ سے مراد ان کا لوٹنا ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں