مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان ۔ حدیث 1102

دنیا کی مذمت

راوی:

وعنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ألا إن الدنيا ملعونة ملعون ما فيها إلا ذكر الله وما والاه وعالم أو متعلم . رواه الترمذي وابن ماجه

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " یاد رکھو، دنیا ملعون ہے (یعنی دنیا کو بارگاہ الٰہی سے دھتکار دیا گیا ہے کیونکہ یہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے دور رکھتی ہے) اور جو چیز دنیا کے اندر ہے وہ بھی ملعون ہے (یعنی دنیا کی جو چیزیں ذکر اللہ سے غافل رکھتی ہیں ان کو بھی راندہ درگاہ قرار دے دیا گیا ہے) لہٰذا ذکر اللہ، اللہ کی پسندیدہ چیزیں، عالم اور متعلم (وہ چیزیں ہیں جن کو بارگاہ رب العزت میں مقبول قرار دیا گیا ہے" ۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

تشریح :
اس ارشاد گرامی کا مقصد، دنیا سے بے رغبت کرنا اور یہ تعلیم دینا ہے کہ دنیا کی جن چیزوں کو اللہ نے ناپسند کیا ہے جیسے تمام حرام و ناجائز امور، ان سے اجتناب کرو کہ مبادا ان چیزوں کو اختیار کرنے کی وجہ سے تم بھی راندہ درگاہ رب العزت قرار پاجاؤ گے، اور جو چیزیں اللہ کے یہاں مقبول وپسندیدہ ہیں جیسے ذکر اللہ نیک کام اور تعلیم وتعلم وغیرہ ان کو اختیار کرو تاکہ تم بھی مقبول بارگاہ رب العزت قرار پاؤ اللہ کی پسندیدہ چیزوں سے" ۔ عبادات وطاعات اور تمام وہ چیزیں مراد ہیں جو اللہ کی خوشنودی کا باعث اور تقرب الی اللہ کا ذریعہ ہیں! یا ماوالاہ (جس کا ترجمہ" اللہ کی پسندیدہ چیزیں" کیا گیا ہے) کے معنی یہ ہیں کہ وہ چیز جو ذکر اللہ کے قریب اور اس کے مشابہ ہو، جیسے انبیاء واولیاء اور صلحاء کے حالات و فضائل کا ذکر اور اعمال صالحہ" یا یہ معنی ہیں کہ وہ چیز جو ذکر اللہ کے تابع اور اس کے لوازم ومقتضیات میں سے ہے جیسے احکام الٰہی (اوامر ونواہی) کی اتباع و فرمانبرداری۔ لہٰذا ماوالاہ کے پہلے معنی ( جو ترجمہ میں نقل کئے گئے ہیں) مراد لینے کی صورت میں لفظ والاہ کا مادہ اشتقاق ولی ہوگا جس کے معنی محبت اور دوستی کے ہیں، دوسرے معنی مراد لینے کی صورت میں یہ لفظ گویا ولی سے مشتق ہوگا جس کے معنی متابعت کے ہیں۔ لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ اس ساری وضاحت کا تعلق اس امر کو تسلیم کرنے سے ہے کہ " ذکر اللہ" سے مراد اللہ تعالیٰ کے نام کا ورد ہے جیسا کہ عام طور پر ذکر اللہ کا یہی مفہوم سمجھا جاتا ہے اور اگر " ذکراللہ" سے مراد ہر وہ عمل خیر ہو جو اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی، اس کا تقرب حاصل کرنے اور اس کی عبادت کی نیت سے کیا جائے تو اس معنی کے اعتبار سے تمام ہی عبادتیں اور طاعتیں" ذکراللہ" کے مفہوم میں داخل ہوں گے، اور پھر لفظ ماوالاہ سے وہ چیز مراد ہوں گی جو ذکر اللہ کے اسباب وذرائع ہونے کی وجہ سے اس کا باعث اور معین ومددگار ہوتی ہے یہاں تک کہ بقدر کفاف کھانا پینا اور ضروریات زندگی کی دیگر چیزوں کا شمار بھی انہی اسباب میں ہوگا۔ اس صورت میں کہا جائے گا کہ بعد میں عالم اور متعلم کا ذکر تخصیص کے طور پر ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں