صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 2141

تفسیر سورت مدثر ابن عباس نے کہا عسیر بمعنے شدید سخت دشوار اور قسورہ کے معنی ہیں آدمیوں کا شور و غوغا اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اس کا معنی شیر ہے اور ہر سخت چیز قسورہ ہے مسنتفرۃ خوفزدہ ہو کر بھاگنے والے۔

راوی: عبداللہ بن یوسف , لیث , عقیل , ابن شہاب , ابوسلمہ , جابر بن عبداللہ

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ قَالَ أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي سَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ السَّمَائِ فَرَفَعْتُ بَصَرِي قِبَلَ السَّمَائِ فَإِذَا الْمَلَکُ الَّذِي جَائَنِي بِحِرَائٍ قَاعِدٌ عَلَی کُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ فَجَئِثْتُ مِنْهُ حَتَّی هَوَيْتُ إِلَی الْأَرْضِ فَجِئْتُ أَهْلِي فَقُلْتُ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَزَمَّلُونِي فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ إِلَی قَوْلِهِ فَاهْجُرْ قَالَ أَبُو سَلَمَةَ وَالرِّجْزَ الْأَوْثَانَ ثُمَّ حَمِيَ الْوَحْيُ وَتَتَابَعَ

عبداللہ بن یوسف، لیث، عقیل، ابن شہاب، ابوسلمہ، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے رک جانے کے متعلق بیان کرتے ہوئے سنا کہ ایک بار چلا جا رہا تھا کہ میں نے آسمان سے ایک آواز سنی میں نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی تو فرشتے کو دیکھا جو میرے پاس حرا میں آیا تھا وہ آسمان اور زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا تھا مجھ پر اس کی وجہ سے رعب طاری ہوگیا یہاں تک کہ میں زمین پر گر پڑا میں اپنی بیوی (حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے کمبل اڑھاؤ مجھے کمبل اڑھاؤ چنانچہ ان لوگوں نے مجھے کمبل اڑھا دیا تو اللہ تعالیٰ نے آیت (يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ، وَالرِّجْزَ فَاهْجُرْ) تک نازل فرمائی ابوسلمہ نے کہا کہ رجز سے مراد بت ہیں پھر وحی کی آمد کا سلسلہ گرم ہوگیا اور مسلسل وحی آنے لگی۔

Narrated Jabir bin 'Abdullah:
That he heard Allah's Apostle describing the period of pause of the Divine Inspiration, and in his description he said, "While I was walking I heard a voice from the sky. I looked up towards the sky, and behold! I saw the same Angel who came to me in the Cave of Hira', sitting on a chair between the sky and the earth. I was so terrified by him that I fell down on the ground. Then I went to my wife and said, 'Wrap me in garments! Wrap me in garments!' They wrapped me, and then Allah revealed:
"O you, (Muhammad) wrapped-up! Arise and warn…and desert the idols." (74.1-5) Abu Salama said….Rujz means idols." After that, the Divine Inspiration started coming more frequently and regularly.

یہ حدیث شیئر کریں