تفسیر سورت الدخان اور مجاہد نے کہا رھوا سے مراد ہے خشک راستہ علی العالمین سے مراد وہ لوگ ہیں جو ان کے سامنے تھے فاعتلوہ اس کو دھکے دو وزوجناھم بحور عین ہم ان کا نکاح بڑی آنکھوں والی حوروں سے کریں گے جنہیں دیکھ کر آنکھیں حیرت زدہ ہو جائیں گیں ترجمون سے مراد قتل کرنا ہے اور رھوا بمعنی ساکنا ٹھہرا ہوا ہے اور ابن عباس نے کہا کالمھل سے مراد ہے ایسا کالا جو تیل کی تلچھٹ کی طرح ہو اور دوسروں نے کہا کہ تبع سے مراد ملکوک یمن ہیں ان میں سے ہر ایک کو تبع کہا جاتا ہے اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کے بعد آتا ہے اور سایہ کو بھی تبع کہتے ہیں اس لئے کہ وہ سورج کے بعد آتا ہے یوم تاتی السماء بدخان مبین جس دن آسمان کھلا ہوا دھواں لے کر آئے گا قتادہ نے کہا کہ فارتقب سے مراد ہے فانتظر انتظار کر۔
راوی: سلیمان بن حرب , جریر بن حازم , اعمش , ابوالضحیٰ , مسروق
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي الضُّحَی عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی عَبْدِ اللَّهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَعَا قُرَيْشًا کَذَّبُوهُ وَاسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ کَسَبْعِ يُوسُفَ فَأَصَابَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ يَعْنِي کُلَّ شَيْئٍ حَتَّی کَانُوا يَأْکُلُونَ الْمَيْتَةَ فَکَانَ يَقُومُ أَحَدُهُمْ فَکَانَ يَرَی بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَائِ مِثْلَ الدُّخَانِ مِنْ الْجَهْدِ وَالْجُوعِ ثُمَّ قَرَأَ فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَائُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ يَغْشَی النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ حَتَّی بَلَغَ إِنَّا کَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلًا إِنَّکُمْ عَائِدُونَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ أَفَيُکْشَفُ عَنْهُمْ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ وَالْبَطْشَةُ الْکُبْرَی يَوْمَ بَدْرٍ
(آیت) ان کے لئے نصیحت کہاں مفید ہے حالانکہ ان کے پاس رسول کھول کر بیان کرنے والا آ چکا ذکر اور ذکری کے ایک ہی معنی ہیں۔)
سلیمان بن حرب، جریر بن حازم، اعمش، ابوالضحیٰ، مسروق سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں عبداللہ کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قریش کے حق میں بد دعا کی انہوں نے آپ کو جھٹلایا تھا اور آپ کی نافرمانی کی تھی تو آپ نے فرمایا کہ یا اللہ یوسف علیہ السلام کی سی قحط سالی کے ذریعہ ان (کافروں) کے خلاف ہماری مدد کر وہ لوگ قحط میں مبتلا ہو گئے اور تمام چیزیں ختم ہو گئیں یہاں تک کہ وہ مردار کھانے لگے چنانچہ اگر کوئی شخص کھڑا ہوتا تو بھوک اور تکلیف کے سبب سے اس کے اور آسمان کے درمیان دھواں سا نظر آتا پھر یہ آیت پڑھی اور اس دن کا انتظار کرو جب آسمان صریح دھواں لے کر آئے گا لوگوں پر چھا جائے گا یہ درد ناک عذاب ہے یہاں تک کہ اس آیت پر پہنچے کہ بے شک ہم عذاب کو کچھ دنوں کے لئے دور کردیں گے بے شک تم اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹ جاؤ گے عبداللہ نے کہا قیامت کے دن ان سے عذاب دور کیا جائے گا اور کہا بطشۃ کبری سے مراد یوم بدر ہے۔
Narrated Masruq:
I came upon 'Abdullah and he said, "When Allah's Apostle invited Quraish (to Islam), they disbelieved him and stood against him. So he (the Prophet) said, "O Allah! Help me against them by afflicting them with seven years of famine similar to the seven years of Joseph.' So they were stricken with a year of drought that destroyed everything, and they started eating dead animals, and if one of them got up he would see something like smoke between him and the sky from the severe fatigue and hunger." Abdullah then recited:–
'Then watch you for the Day that the sky will bring forth a kind of smoke plainly visible, covering the people. This is a painful torment… (till he reached) …….. We shall indeed remove the punishment for a while, but truly you will revert (to heathenism): (44.10-15) 'Abdullah added: "Will the punishment be removed from them on the Day of Resurrection?" He added," The severe grasp" was the Day of the Battle of Badr."
