صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 2033

تفسیر سورت الدخان اور مجاہد نے کہا رھوا سے مراد ہے خشک راستہ علی العالمین سے مراد وہ لوگ ہیں جو ان کے سامنے تھے فاعتلوہ اس کو دھکے دو وزوجناھم بحور عین ہم ان کا نکاح بڑی آنکھوں والی حوروں سے کریں گے جنہیں دیکھ کر آنکھیں حیرت زدہ ہو جائیں گیں ترجمون سے مراد قتل کرنا ہے اور رھوا بمعنی ساکنا ٹھہرا ہوا ہے اور ابن عباس نے کہا کالمھل سے مراد ہے ایسا کالا جو تیل کی تلچھٹ کی طرح ہو اور دوسروں نے کہا کہ تبع سے مراد ملکوک یمن ہیں ان میں سے ہر ایک کو تبع کہا جاتا ہے اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کے بعد آتا ہے اور سایہ کو بھی تبع کہتے ہیں اس لئے کہ وہ سورج کے بعد آتا ہے یوم تاتی السماء بدخان مبین جس دن آسمان کھلا ہوا دھواں لے کر آئے گا قتادہ نے کہا کہ فارتقب سے مراد ہے فانتظر انتظار کر۔

راوی: سلیمان بن حرب , جریر بن حازم , اعمش , ابوالضحیٰ , مسروق

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي الضُّحَی عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی عَبْدِ اللَّهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَعَا قُرَيْشًا کَذَّبُوهُ وَاسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ کَسَبْعِ يُوسُفَ فَأَصَابَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ يَعْنِي کُلَّ شَيْئٍ حَتَّی کَانُوا يَأْکُلُونَ الْمَيْتَةَ فَکَانَ يَقُومُ أَحَدُهُمْ فَکَانَ يَرَی بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَائِ مِثْلَ الدُّخَانِ مِنْ الْجَهْدِ وَالْجُوعِ ثُمَّ قَرَأَ فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَائُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ يَغْشَی النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ حَتَّی بَلَغَ إِنَّا کَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلًا إِنَّکُمْ عَائِدُونَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ أَفَيُکْشَفُ عَنْهُمْ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ وَالْبَطْشَةُ الْکُبْرَی يَوْمَ بَدْرٍ

(آیت) ان کے لئے نصیحت کہاں مفید ہے حالانکہ ان کے پاس رسول کھول کر بیان کرنے والا آ چکا ذکر اور ذکری کے ایک ہی معنی ہیں۔)
سلیمان بن حرب، جریر بن حازم، اعمش، ابوالضحیٰ، مسروق سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں عبداللہ کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قریش کے حق میں بد دعا کی انہوں نے آپ کو جھٹلایا تھا اور آپ کی نافرمانی کی تھی تو آپ نے فرمایا کہ یا اللہ یوسف علیہ السلام کی سی قحط سالی کے ذریعہ ان (کافروں) کے خلاف ہماری مدد کر وہ لوگ قحط میں مبتلا ہو گئے اور تمام چیزیں ختم ہو گئیں یہاں تک کہ وہ مردار کھانے لگے چنانچہ اگر کوئی شخص کھڑا ہوتا تو بھوک اور تکلیف کے سبب سے اس کے اور آسمان کے درمیان دھواں سا نظر آتا پھر یہ آیت پڑھی اور اس دن کا انتظار کرو جب آسمان صریح دھواں لے کر آئے گا لوگوں پر چھا جائے گا یہ درد ناک عذاب ہے یہاں تک کہ اس آیت پر پہنچے کہ بے شک ہم عذاب کو کچھ دنوں کے لئے دور کردیں گے بے شک تم اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹ جاؤ گے عبداللہ نے کہا قیامت کے دن ان سے عذاب دور کیا جائے گا اور کہا بطشۃ کبری سے مراد یوم بدر ہے۔

Narrated Masruq:
I came upon 'Abdullah and he said, "When Allah's Apostle invited Quraish (to Islam), they disbelieved him and stood against him. So he (the Prophet) said, "O Allah! Help me against them by afflicting them with seven years of famine similar to the seven years of Joseph.' So they were stricken with a year of drought that destroyed everything, and they started eating dead animals, and if one of them got up he would see something like smoke between him and the sky from the severe fatigue and hunger." Abdullah then recited:–
'Then watch you for the Day that the sky will bring forth a kind of smoke plainly visible, covering the people. This is a painful torment… (till he reached) …….. We shall indeed remove the punishment for a while, but truly you will revert (to heathenism): (44.10-15) 'Abdullah added: "Will the punishment be removed from them on the Day of Resurrection?" He added," The severe grasp" was the Day of the Battle of Badr."

یہ حدیث شیئر کریں