صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 1884

باب (نیو انٹری)

راوی:

سُورَةُ الرَّعْدِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ مَثَلُ الْمُشْرِكِ الَّذِي عَبَدَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ غَيْرَهُ كَمَثَلِ الْعَطْشَانِ الَّذِي يَنْظُرُ إِلَى ظِلِّ خَيَالِهِ فِي الْمَاءِ مِنْ بَعِيدٍ وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يَتَنَاوَلَهُ وَلَا يَقْدِرُ وَقَالَ غَيْرُهُ سَخَّرَ ذَلَّلَ مُتَجَاوِرَاتٌ مُتَدَانِيَاتٌ وَقَالَ غَيْرُهُ الْمَثُلَاتُ وَاحِدُهَا مَثُلَةٌ وَهِيَ الْأَشْبَاهُ وَالْأَمْثَالُ وَقَالَ إِلَّا مِثْلَ أَيَّامِ الَّذِينَ خَلَوْا بِمِقْدَارٍ بِقَدَرٍ يُقَالُ مُعَقِّبَاتٌ مَلَائِكَةٌ حَفَظَةٌ تُعَقِّبُ الْأُولَى مِنْهَا الْأُخْرَى وَمِنْهُ قِيلَ الْعَقِيبُ أَيْ عَقَّبْتُ فِي إِثْرِهِ الْمِحَالِ الْعُقُوبَةُ كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَقْبِضَ عَلَى الْمَاءِ رَابِيًا مِنْ رَبَا يَرْبُو أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُهُ الْمَتَاعُ مَا تَمَتَّعْتَ بِهِ جُفَاءً يُقَالُ أَجْفَأَتْ الْقِدْرُ إِذَا غَلَتْ فَعَلَاهَا الزَّبَدُ ثُمَّ تَسْكُنُ فَيَذْهَبُ الزَّبَدُ بِلَا مَنْفَعَةٍ فَكَذَلِكَ يُمَيِّزُ الْحَقَّ مِنْ الْبَاطِلِ الْمِهَادُ الْفِرَاشُ يَدْرَءُونَ يَدْفَعُونَ دَرَأْتُهُ عَنِّي دَفَعْتُهُ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ أَيْ يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ وَإِلَيْهِ مَتَابِ تَوْبَتِي أَفَلَمْ يَيْئَسْ أَفَلَمْ يَتَبَيَّنْ قَارِعَةٌ دَاهِيَةٌ فَأَمْلَيْتُ أَطَلْتُ مِنْ الْمَلِيِّ وَالْمِلَاوَةِ وَمِنْهُ مَلِيًّا وَيُقَالُ لِلْوَاسِعِ الطَّوِيلِ مِنْ الْأَرْضِ مَلًى مِنْ الْأَرْضِ أَشَقُّ أَشَدُّ مِنْ الْمَشَقَّةِ مُعَقِّبَ مُغَيِّرٌ وَقَالَ مُجَاهِدٌ مُتَجَاوِرَاتٌ طَيِّبُهَا وَخَبِيثُهَا السِّبَاخُ صِنْوَانٌ النَّخْلَتَانِ أَوْ أَكْثَرُ فِي أَصْلٍ وَاحِدٍ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ وَحْدَهَا بِمَاءٍ وَاحِدٍ كَصَالِحِ بَنِي آدَمَ وَخَبِيثِهِمْ أَبُوهُمْ وَاحِدٌ السَّحَابُ الثِّقَالُ الَّذِي فِيهِ الْمَاءُ كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ يَدْعُو الْمَاءَ بِلِسَانِهِ وَيُشِيرُ إِلَيْهِ بِيَدِهِ فَلَا يَأْتِيهِ أَبَدًا فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا تَمْلَأُ بَطْنَ كُلِّ وَادٍ زَبَدًا رَابِيًا الزَّبَدُ زَبَدُ السَّيْلِ زَبَدٌ مِثْلُهُ خَبَثُ الْحَدِيدِ وَالْحِلْيَةِ

سورة رعد کی تفسیر!
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ابن عباس فرماتے ہیں کہ ”کباسط کفیہ الی المائ“ یعنی جس طرح کوئی پانی کی طرف ہاتھ بڑھائے ہو‘ یہ مشرک کی مثال ہے جو اللہ کے سوا کسی دوسرے کی پرستش اور عبادت کرتا ہے ‘ جس طرح پانی پیاسے کو نہیں ملتا ہے‘ اسی طرح غیر اللہ اس کی حاجت روائی نہیں کر سکتے۔ بعض کا بیان ہے کہ ”سخر“ کے معنی مسخر کیا‘ تابع کیا ”ذلل“ محکوم بنا دیا” متجاورات “ کے معنی ایک دوسرے سے قریب ہوئے ”مثلات“ جمع ہے مثلہ کے بمعنی نظیر ”مقدار“ اندازہ“ ”معقبات“ نگہبان یعنی جو فرشتے صبح و شام آتے رہتے ہیں ”المحال“ عذاب ”رابیا‘ بنا ہے ربا یربو سے‘ بڑھنے والا جیسے ”زید“ جھاگ”متاع“ فائدے کی چیز ”جفائ“ ہانڈی نے جوش مارا‘ جھاگ آئے اور ہانڈی کے سرد ہونے پر جھاگ ختم ہو گئی‘ اسی طرح حق باطل سے علیحدہ ہو جاتا ہے ‘ ”المھاد“ بچھونے ”بسترے“ یدرون“ ہٹاتے ہیں” دارتہ“ سے یہ بنا ہے جس کا مطلب ہے ان کو دور کیا ”سلام علیکم“ تم سلامت رہو‘ یہ قول فرشتوں کا مسلمان کے لئے ہو گا ”والیہ متاب“ میں اس سے توبہ کرتا ہوں ”افلم ییاس“ کیا انہوں نے نہیں جانا‘ مایوس اور ہوئے ”لم یتبین“ کیا ان پر ظاہر نہیں ہوا ”قارعتہ“ کھڑ کھڑانے والی ”داھہ“ مصیبت ”فاملیت“ مہلت دی یہ ”ملی“ اور ”ملاوہ“ سے بنا ہے‘ اسی سے ”ملیا“ ”اشق“ اسم تفضیل ہے بہت سخت ”معقب“ بدلنے والا ”متجاورات‘ کے متعلق مجاہد کا بیان ہے کہ بعض قطعات زمین زرخیز ہیں اور بعض ناقابل کاشت ”صنوان“ جڑے ہوئے درخت کھجور ”غیر صنوان“ الگ الگ درخت یہی حال آدمیوں کا ہے کوئی نیک کوئی بد حالانکہ سب حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ ”السحاب الثقال“ بادل پانی سے بھرے ہوئے ”کباسط کفیہ“ پیاسا جو ہاتھ اور زبان سے اشارہ کر کے پانی کو ہلائے‘ وہ ہمیشہ ہی محروم رہتا ہے ”سالت اودیة بقدرھا“ یعنی نالے اپنے اندازے کے مطابق بہتے ہیں ”قدر“ اندازہ” رابیا“ جھاگ پھولے ہوئے ”زبد السیل“ سیلاب کے جھاگ جس طرح لوہے یا کسی اور دھات کے گرم ہونے سے اندر سے میل باہر آتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں