صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 1874

باب (نیو انٹری)

راوی:

سُورَةُ يُوسُفَ وَقَالَ فُضَيْلٌ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ مُجَاهِدٍ مُتَّكَأً الْأُتْرُجُّ قَالَ فُضَيْلٌ الْأُتْرُجُّ بِالْحَبَشِيَّةِ مُتْكًا وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ رَجُلٍ عَنْ مُجَاهِدٍ مُتْكًا قَالَ كُلُّ شَيْءٍ قُطِعَ بِالسِّكِّينِ وَقَالَ قَتَادَةُ لَذُو عِلْمٍ لِمَا عَلَّمْنَاهُ عَامِلٌ بِمَا عَلِمَ وَقَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ صُوَاعَ الْمَلِكِ مَكُّوكُ الْفَارِسِيِّ الَّذِي يَلْتَقِي طَرَفَاهُ كَانَتْ تَشْرَبُ بِهِ الْأَعَاجِمُ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ تُفَنِّدُونِ تُجَهِّلُونِ وَقَالَ غَيْرُهُ غَيَابَةٌ كُلُّ شَيْءٍ غَيَّبَ عَنْكَ شَيْئًا فَهُوَ غَيَابَةٌ وَالْجُبُّ الرَّكِيَّةُ الَّتِي لَمْ تُطْوَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا بِمُصَدِّقٍ أَشُدَّهُ قَبْلَ أَنْ يَأْخُذَ فِي النُّقْصَانِ يُقَالُ بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغُوا أَشُدَّهُمْ وَقَالَ بَعْضُهُمْ وَاحِدُهَا شَدٌّ وَالْمُتَّكَأُ مَا اتَّكَأْتَ عَلَيْهِ لِشَرَابٍ أَوْ لِحَدِيثٍ أَوْ لِطَعَامٍ وَأَبْطَلَ الَّذِي قَالَ الْأُتْرُجُّ وَلَيْسَ فِي كَلَامِ الْعَرَبِ الْأُتْرُجُّ فَلَمَّا احْتُجَّ عَلَيْهِمْ بِأَنَّهُ الْمُتَّكَأُ مِنْ نَمَارِقَ فَرُّوا إِلَى شَرٍّ مِنْهُ فَقَالُوا إِنَّمَا هُوَ الْمُتْكُ سَاكِنَةَ التَّاءِ وَإِنَّمَا الْمُتْكُ طَرَفُ الْبَظْرِ وَمِنْ ذَلِكَ قِيلَ لَهَا مَتْكَاءُ وَابْنُ الْمَتْكَاءِ فَإِنْ كَانَ ثَمَّ أُتْرُجٌّ فَإِنَّهُ بَعْدَ الْمُتَّكَإِ شَغَفَهَا يُقَالُ بَلَغَ شِغَافَهَا وَهُوَ غِلَافُ قَلْبِهَا وَأَمَّا شَعَفَهَا فَمِنْ الْمَشْعُوفِ أَصْبُ أَمِيلُ صَبَا مَالَ أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ مَا لَا تَأْوِيلَ لَهُ وَالضِّغْثُ مِلْءُ الْيَدِ مِنْ حَشِيشٍ وَمَا أَشْبَهَهُ وَمِنْهُ وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا لَا مِنْ قَوْلِهِ أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ وَاحِدُهَا ضِغْثٌ نَمِيرُ مِنْ الْمِيرَةِ وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ مَا يَحْمِلُ بَعِيرٌ أَوَى إِلَيْهِ ضَمَّ إِلَيْهِ السِّقَايَةُ مِكْيَالٌ تَفْتَأُ لَا تَزَالُ حَرَضًا مُحْرَضًا يُذِيبُكَ الْهَمُّ تَحَسَّسُوا تَخَبَّرُوا مُزْجَاةٍ قَلِيلَةٍ غَاشِيَةٌ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ عَامَّةٌ مُجَلِّلَةٌ اسْتَيْأَسُوا يَئِسُوا لَا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ مَعْنَاهُ الرَّجَاءُ خَلَصُوا نَجِيًّا اعْتَزَلُوا نَجِيًّا وَالْجَمِيعُ أَنْجِيَةٌ يَتَنَاجَوْنَ الْوَاحِدُ نَجِيٌّ وَالِاثْنَانِ وَالْجَمِيعُ نَجِيٌّ وَأَنْجِيَةٌ

سورة یوسف
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فضیل‘ حصین سے اور وہ مجاہد کے حوالہ سے کہتے ہیں کہ ”متکا“ حبشی زبان میں لیموں (ترنج) کو کہتے ہیں‘ ابن عیینہ‘ بواسطہ ایک آدمی مجاہد سے بیان کرتے ہیں کہ ”متکا“ ہر چاقو سے تراشنے والی چیز کو کہتے ہیں ‘ قتادہ کہتے ہیں کہ ”لذوعلم“ سے مراد عالم باعمل ہے‘ ابن جبیر نے کہا کہ ”صواع“ کو فارسی میں مکوک یعنی پیالہ کہتے ہیں اور شراب اسی میں پی جاتی ہے‘ اور اس کے کنارے ملے ہوئے ہیں‘ عجم کے لوگ پانی اسی میں پیتے ہیں ابن عباس فرماتے ہیں کہ ”تفندون“ کا مطلب ہے کہ مجھے جاہل مت کہو‘ بعض کہتے ہیں کہ ”عنایہ“ کے معنی وہ چیز جو دوسری سے چھپا دے اور ”جب“ اس کو کہتے ہیں جو کچا ہو اور اس کی بندش نہ ہوئی ہو ”بمومن لنا“ کے معنی ہیں کہ تو ہماری بات سچ ماننے والا نہیں ہے ”اشدہ“ اور وہ عمر جو انحطاط کے زمانہ سے پہلے ہوتی ہے‘ عربوں کا مقولہ ہے کہ ”بلغ اشدہ“ یا بلغوا اشدھم“ یعنی وہ اپنی جوانی کو پہنچا سکتے ہیں‘ کہ ”اشد“ اشد کی جمع ہے‘ بعض کہتے ہیں کہ ”متکا“ اس تکیہ یا مسند کو کہتے ہیں جس پر باتیں کرنے یا کچھ کھانے پینے کے وقت سہارا لیا جائے‘ اور اترج کے معنی غلط ہیں جو اس کے معنی ترنج کہتا ہے اس کی کوئی دلیل نہیں ‘ وہ کہتا ہے کہ تیکہ کے معنی ہیں ”متک“ ہے یعنی ”ت“ ساکن ہے اور ترنج کے معنی میں ”ت“ مشدد ہے‘ یہ بات بہت ہی ہلکی ہے ‘ کیونکہ ”ت“ ساکن سے اس کے معنی فرج کے ہوتے ہیں‘ اس لئے گالی کے وقت کہتے ہیں کہ ابن ”المتکا“ غرض مسند کے معنی صحیح ہیں‘ اس لئے کہ زلیخا نے جو ترنج عورتوں کے ہاتھ میں دیئے تھے ‘ وہ تکیہ لگانے کے بعد ہی دیئے ہوں گے شغفھا اس کے دل کو ڈھانپ لیا‘ ”مشعوف“ کے معنی جس کے دل کو محبت نے جلا دیا” اصب“ مائل ہو جاؤں گا میں ”اضغاث احلام“ کے معنی ہیں‘ پراگندہ خیالات ضغث تنکوں کا مٹھا جو ہاتھ میں آ جائے جیسا کہ اگلی آیت میں ہے‘ خذ بیدک ضغثا“ اپنے ہاتھ میں جھاڑو پکڑ ”نمیر“ ”میرة“ سے نکلا ہے‘ مطلب ہے ہم کھلائیں گے ”نزداد کیل بعیر‘ایک اونٹ کا وزن یا پیمانہ مراد ہے ”اوی الیہ“ اپنے پاس جگہ دی‘ یعنی اپنے پاس رکھا”السقایہ“ کا مطلب ہے کٹوریا برتن یا اناج کے ناپنے کا پیمانہ ”تفتؤ“ ہمیشہ رہو گے ”تحسو“ تلاش کرو‘ جستجو کرو‘ خبر لاؤ‘ ولاتیا سوا من روح اللہ“ اللہ کی رحمت سے نا امید مت ہو ”خلصوا نجیا“ الگ ہو کر مشورہ کرنے لگے‘ نجی کے معنی مشورہ کرنے والا‘ یہ ثنیہ اور جمع دونوں پر مستعمل ہوتا ہے ‘”حرضا“ گلایا گیا ”مزجاة“ تھوری ”غاشیة من عذاب اللہ“ کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب سب کو گھیرے میں لئے ہوئے ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں