صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 1861

اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ نے ان تین آدمیوں پر بھی مہربانی فرمائی جو پیچھے رہ گئے تھے یہاں تک کہ زمین باوجود فراخ ہونے کے تنگ ہوگئی تھی اور ان کے اپنی جانیں بوجھ معلوم ہونے لگیں اور انہوں نے جان لیا کہ سوائے اللہ کے اور کہیں پناہ نہ ملے گی تو اللہ نے ان پر مہربانی کی تاکہ وہ اپنی توبہ پر قائم رہیں بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

راوی: محمد , احمد بن ابی شعیب , موسیٰ بن اعین , اسحٰق بن راشد , زہری , عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک

حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ابْنُ أَبِي شُعَيْبٍ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ أَعْيَنَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ رَاشِدٍ أَنَّ الزُّهْرِيَّ حَدَّثَهُ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ وَهُوَ أَحَدُ الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ تِيبَ عَلَيْهِمْ أَنَّهُ لَمْ يَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا قَطُّ غَيْرَ غَزْوَتَيْنِ غَزْوَةِ الْعُسْرَةِ وَغَزْوَةِ بَدْرٍ قَالَ فَأَجْمَعْتُ صِدْقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضُحًی وَکَانَ قَلَّمَا يَقْدَمُ مِنْ سَفَرٍ سَافَرَهُ إِلَّا ضُحًی وَکَانَ يَبْدَأُ بِالْمَسْجِدِ فَيَرْکَعُ رَکْعَتَيْنِ وَنَهَی النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ کَلَامِي وَکَلَامِ صَاحِبَيَّ وَلَمْ يَنْهَ عَنْ کَلَامِ أَحَدٍ مِنْ الْمُتَخَلِّفِينَ غَيْرِنَا فَاجْتَنَبَ النَّاسُ کَلَامَنَا فَلَبِثْتُ کَذَلِکَ حَتَّی طَالَ عَلَيَّ الْأَمْرُ وَمَا مِنْ شَيْئٍ أَهَمُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَمُوتَ فَلَا يُصَلِّي عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ يَمُوتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَکُونَ مِنْ النَّاسِ بِتِلْکَ الْمَنْزِلَةِ فَلَا يُکَلِّمُنِي أَحَدٌ مِنْهُمْ وَلَا يُصَلِّي وَلَا يُسَلِّمُ عَلَيَّ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَوْبَتَنَا عَلَی نَبِيِّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ بَقِيَ الثُّلُثُ الْآخِرُ مِنْ اللَّيْلِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ أُمِّ سَلَمَةَ وَکَانَتْ أُمُّ سَلَمَةَ مُحْسِنَةً فِي شَأْنِي مَعْنِيَّةً فِي أَمْرِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أُمَّ سَلَمَةَ تِيبَ عَلَی کَعْبٍ قَالَتْ أَفَلَا أُرْسِلُ إِلَيْهِ فَأُبَشِّرَهُ قَالَ إِذًا يَحْطِمَکُمْ النَّاسُ فَيَمْنَعُونَکُمْ النَّوْمَ سَائِرَ اللَّيْلَةِ حَتَّی إِذَا صَلَّی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْفَجْرِ آذَنَ بِتَوْبَةِ اللَّهِ عَلَيْنَا وَکَانَ إِذَا اسْتَبْشَرَ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ حَتَّی کَأَنَّهُ قِطْعَةٌ مِنْ الْقَمَرِ وَکُنَّا أَيُّهَا الثَّلَاثَةُ الَّذِينَ خُلِّفُوا عَنْ الْأَمْرِ الَّذِي قُبِلَ مِنْ هَؤُلَائِ الَّذِينَ اعْتَذَرُوا حِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ لَنَا التَّوْبَةَ فَلَمَّا ذُکِرَ الَّذِينَ کَذَبُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمُتَخَلِّفِينَ وَاعْتَذَرُوا بِالْبَاطِلِ ذُکِرُوا بِشَرِّ مَا ذُکِرَ بِهِ أَحَدٌ قَالَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ يَعْتَذِرُونَ إِلَيْکُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ قُلْ لَا تَعْتَذِرُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَکُمْ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبَارِکُمْ وَسَيَرَی اللَّهُ عَمَلَکُمْ وَرَسُولُهُ الْآيَةَ

محمد، احمد بن ابی شعیب، موسیٰ بن اعین، اسحاق بن راشد، زہری، عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی بھی لڑائی میں کبھی پیچھے نہیں رہا مگر سوائے دو لڑائیوں کے ایک جنگ بدر اور دوسرے جنگ تبوک چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگ تبوک سے واپسی کے وقت مدینہ میں تشریف لائے تو میں بہانہ کرنے کے بجائے سچ کہنے کا پختہ ارادہ کر چکا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو اکثر چاشت کے وقت تشریف لایا کرتے تھے اور سب سے پہلے مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو میرے اور میرے دونوں ساتھیوں کے ساتھ بات کرنے سے روک دیا تھا مگر دوسرے رہ جانے والوں سے نہیں روکا تھا چنانچہ لوگ ہم تینوں سے الگ رہتے اور بات تک نہ کرتے مجھے اس بات کا بہت غم تھا کہ کہیں اسی حال میں میں مر نہ جاؤں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ پر نماز جنازہ بھی نہ پڑھیں یا اللہ نخواستہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی دنیا سے سفر فرما جائیں اور پھر سب کا ہمارے ساتھ ایسا ہی برتاؤ رہے اور لوگ نہ ہمارے ساتھ کلام کریں اور نہ ہی نماز جنازہ پڑھیں آخر پچاس دن کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہم پر کرم فرمایا اور ایک دن صبح ہی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ہماری توبہ کے قبول ہونے کے متعلق وحی نازل کی گئی اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے یہاں تھے اور وہ ہماری بہت سفارش کیا کرتی تھیں۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی توبہ قبول ہوگئی ہے ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ میں ان کے پاس کس کو بھیجوں جو جا کر انہیں خبر کردے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت سب لوگ جمع ہو جائیں گے اور پھر تم کو تمام رات سونا بھی نصیب نہ ہوگا چنانچہ صبح کی نماز کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو اس بات کی خبر کردی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک خوشی سے چاند کی طرح چمک رہا تھا اور ہر خوشی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اسی طرح چمکنے لگتا تھا۔ ہم تینوں آدمی تمام منافقوں سے توبہ کے قبول ہونے میں پیچھے رہ گئے تھے جب تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کیلئے ایسا برا بھلا کہا کہ کسی کیلئے نہیں کہا اور یہ آیت ان کے حق میں نازل فرمائی ( يَعْتَذِرُوْنَ اِلَيْكُمْ اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَيْهِمْ الخ۔ ) 9۔ التوبہ : 94) یعنی جب تم ان کے پاس جاؤ گے تو یہ جھوٹے بہانے بنائیں گے۔ اے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما دیجئے کہ اے منافقو! عذر مت کرو ہم کبھی تم کو سچا نہ جانیں گے اللہ نے تمہاری سب باتوں کی ہمیں خبر کردی ہے اللہ اور رسول اب تمہارے اعمال دیکھیں گے۔

Narrated Abdullah bin Kab:
I heard Ka'b bin Malik who was one of the three who were forgiven, saying that he had never remained behind Allah's Apostle in any Ghazwa which he had fought except two Ghazwat Ghazwat-al'Usra (Tabuk) and Ghazwat-Badr. He added. "I decided to tell the truth to Allah's Apostle in the forenoon, and scarcely did he return from a journey he made, except in the forenoon, he would go first to the mosque and offer a two-Rak'at prayer. The Prophet forbade others to speak to me or to my two companions, but he did not prohibit speaking to any of those who had remained behind excepting us. So the people avoided speaking to us, and I stayed in that state till I could no longer bear it, and the only thing that worried me was that I might die and the Prophet would not offer the funeral prayer for me, or Allah's Apostle might die and I would be left in that social status among the people that nobody would speak to me or offer the funeral prayer for me. But Allah revealed His Forgiveness for us to the Prophet in the last third of the night while Allah's Apostle was with Um Salama. Um Salama sympathized with me and helped me in my disaster. Allah's Apostle said, 'O Um Salama! Ka'b has been forgiven!' She said, 'Shall I send someone to him to give him the good tidings?' He said, 'If you did so, the people would not let you sleep the rest of the night.' So when the Prophet had offered the Fajr prayer, he announced Allah's Forgiveness for us. His face used to look as bright as a piece of the (full) moon whenever he was pleased. When Allah revealed His Forgiveness for us, we were the three whose case had been deferred while the excuse presented by those who had apologized had been accepted. But when there were mentioned those who had told the Prophet lies and remained behind (the battle of Tabuk) and had given false excuses, they were described with the worse description one may be described with. Allah said: 'They will present their excuses to you (Muslims) when you return to them. Say: Present no excuses; we shall not believe you. Allah has already informed us of the true state of matters concerning you. Allah and His Apostle will observe your actions." (9.94)

یہ حدیث شیئر کریں