صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 1820

باب (نیو انٹری)

راوی:

سُورَةُ الْأَعْرَافِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَرِيَاشًا الْمَالُ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ فِي الدُّعَاءِ وَفِي غَيْرِهِ عَفَوْا كَثُرُوا وَكَثُرَتْ أَمْوَالُهُمْ الْفَتَّاحُ الْقَاضِي افْتَحْ بَيْنَنَا اقْضِ بَيْنَنَا نَتَقْنَا الْجَبَلَ رَفَعْنَا انْبَجَسَتْ انْفَجَرَتْ مُتَبَّرٌ خُسْرَانٌ آسَى أَحْزَنُ تَأْسَ تَحْزَنْ وَقَالَ غَيْرُهُ مَا مَنَعَكَ أَنْ لَا تَسْجُدَ يَقُولُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ يَخْصِفَانِ أَخَذَا الْخِصَافَ مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ يُؤَلِّفَانِ الْوَرَقَ يَخْصِفَانِ الْوَرَقَ بَعْضَهُ إِلَى بَعْضٍ سَوْآتِهِمَا كِنَايَةٌ عَنْ فَرْجَيْهِمَا وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ هُوَ هَا هُنَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَالْحِينُ عِنْدَ الْعَرَبِ مِنْ سَاعَةٍ إِلَى مَالَا يُحْصَى عَدَدُهُ الرِّيَاشُ وَالرِّيشُ وَاحِدٌ وَهْوَ مَا ظَهَرَ مِنْ اللِّبَاسِ قَبِيلُهُ جِيلُهُ الَّذِي هُوَ مِنْهُمْ ادَّارَكُوا اجْتَمَعُوا وَمَشَاقُّ الْإِنْسَانِ وَالدَّابَّةِ كُلُّهَا يُسَمَّى سُمُومًا وَاحِدُهَا سَمٌّ وَهِيَ عَيْنَاهُ وَمَنْخِرَاهُ وَفَمُهُ وَأُذُنَاهُ وَدُبُرُهُ وَإِحْلِيلُهُ غَوَاشٍ مَا غُشُّوا بِهِ نُشُرًا مُتَفَرِّقَةً نَكِدًا قَلِيلًا يَغْنَوْا يَعِيشُوا حَقِيقٌ حَقٌّ اسْتَرْهَبُوهُمْ مِنْ الرَّهْبَةِ تَلَقَّفُ تَلْقَمُ طَائِرُهُمْ حَظُّهُمْ طُوفَانٌ مِنْ السَّيْلِ وَيُقَالُ لِلْمَوْتِ الْكَثِيرِ الطُّوفَانُ الْقُمَّلُ الْحُمْنَانُ يُشْبِهُ صِغَارَ الْحَلَمِ عُرُوشٌ وَعَرِيشٌ بِنَاءٌ سُقِطَ كُلُّ مَنْ نَدِمَ فَقَدْ سُقِطَ فِي يَدِهِ الْأَسْبَاطُ قَبَائِلُ بَنِي إِسْرَائِيلَ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ يَتَعَدَّوْنَ لَهُ يُجَاوِزُونَ تَجَاوُزٌ بَعْدَ تَجَاوُزٍ تَعْدُ تُجَاوِزْ شُرَّعًا شَوَارِعَ بَئِيسٍ شَدِيدٍ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ قَعَدَ وَتَقَاعَسَ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ أَيْ نَأْتِيهِمْ مِنْ مَأْمَنِهِمْ كَقَوْلِهِ تَعَالَى فَأَتَاهُمْ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا مِنْ جِنَّةٍ مِنْ جُنُونٍ أَيَّانَ مُرْسَاهَا مَتَى خُرُوجُهَا فَمَرَّتْ بِهِ اسْتَمَرَّ بِهَا الْحَمْلُ فَأَتَمَّتْهُ يَنْزَغَنَّكَ يَسْتَخِفَّنَّكَ طَيْفٌ مُلِمٌّ بِهِ لَمَمٌ وَيُقَالُ طَائِفٌ وَهُوَ وَاحِدٌ يَمُدُّونَهُمْ يُزَيِّنُونَ وَخِيفَةً خَوْفًا وَخُفْيَةً مِنْ الْإِخْفَاءِ وَالْآصَالُ وَاحِدُهَا أَصِيلٌ وَهُوَ مَا بَيْنَ الْعَصْرِ إِلَى الْمَغْرِبِ كَقَوْلِهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا

سورہ اعراف کی تفسیر !
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ”وریشا“ میں بعض قرآت ” ریاشا“ بھی آیا ہے جس کے معنی ریشا کے ہوتے ہیں یعنی مال ”معتدین“ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت نہیں کرتا ‘ جو دعا میں حد سے بڑھ جاتے ہیں ” عفوا “ کے معنی ہیں مال کی زیادتی ” فتاح “ کے معنی ہیں فیصلہ کرنے والا ‘ جیسے ” افتح بیننا “ ہمارا فیصلہ کردو ‘ ” نتقنا “ کے معنی ہیں اٹھایا ہم نے ” انبجست “ کے معنی ہیں جاری ہوگئے یا پھوٹ نکلے ” متبر “ خسارہ پانے والے ” آسی “ کے معنی ہیں غم کروں ‘ ان کے علاوہ دوسرے کہتے ہیں ” ما منعک ان لا تسجد “ میں ” لا “ زائدہ ہے اور معنے ہوئے کس چیز نے سجدہ سے روکا اور ” یخصفان “ کے معنی ہیں کہ آدم و حوا نے بہشت کے پتوں سے شرمگاہ کو چھپایا ” متاع الی حین “ میں ” حین “ سے مراد قیامت ہے اور ” ریاش “ کے معنی ہیں لباس ” قبیلہ “ سے ذات والے مراد ہیں ” ادارکوا“ کے معنی ہیں سب اکٹھے ہو جائیں گے ” مسام “ اور ” مشاق “ کے معنی سوراخ کے ہیں ‘ جیسے آنکھ ‘ کان ‘ ناک اور قبل ودبر وغیرہ ” غواش “ غلاف کو کہتے ہیں ” نشرا“ کے معنی ہیں متفرق ” نکدا“ کے معنی قلیل یعنی تھوڑا ” یغنوا “ کے معنی ہیں زندگی گزار دی ” حقیق “ کے معنی حق اور سچائی ” استرھبوھم “ رھبتہ کے معنی ہیں ان کوڈراؤ ” تلقف “ کے معنی ہیں ان کو لقمہ بنائے گا ” طار “ کے معنی قسمت ‘ تقدیر ” طوفان “ کے معنی ہیں بارش ‘ موت ” قمل “ جوئیں ” اسباط “ قبائل بنی اسرائیل ” یعدون “ حد شریعت سے بڑھتے تھے ” تعد “ کے معنی حد سے بڑھنا ہے “ شرعا“ کے معنی ہیں پانی کی سطح پر ظاہر ” بئیس “ کے معنی بہت شدید ” اخلدالی الارض “ بیٹھ گیا دیر کی ‘ یعنی پستی کی طرف جھک گیا اور خواہش کی کہ ہمیشہ اسی جگہ رہوں گا‘ ” سنستدر جھم “ کے معنی ہیں ہم ان کو ان کی امن کی جگہ سے لائیں گے ‘ فاتاھم اللہ من حیث لم یحتسبوا‘ یعنی اللہ تعالیٰ کا عذاب ادھر سے آگیا ‘ جہاں سے انہیں عذاب کا وہم وگمان بھی نہیں تھا ” جنہ “ دیوانگی ” فمرت بہ “ کے معنی ہیں اس نے اپنے پیٹ کی مدت پوری کی ” ینزغنک “ بہکائے تجھ کو ” طائف “ جمع ” طیف “ جس کے معنی ہیں ‘ مجمع ‘ بھیڑ وغیرہ ” یمدونھم “ وہ ان کو خوبصورت کر کے دکھلاتے ہیں ” خیفتہ “ ” خوف “ اور خفیتہ سب کے ایک ہی معنی ہیں ‘ یعنی خوف اور ڈر ” اصال “ جمع ہے ” اصیل “ کی جس کے معنی ہیں عصر سے مغرب تک کا وقت ‘ جیسے اللہ کا قول ” بکرة واصیلا“

یہ حدیث شیئر کریں