مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 737

زبان دراز اور چکنی چپڑی باتیں کرنے والا اللہ کا ناپسندیدہ ہے۔

راوی:

وعن عبدالله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إن الله يبغض البليغ من الرجال الذي يتخلل بلسانه كما يتخلل الباقرة بلسانها . رواه الترمذي وأبو داود وقال الترمذي هذا حديث غريب

" اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ شخص سخت ناپسندیدہ ہے جو کلام وبیان میں حد سے زیادہ فصاحت وبلاغت کا مظاہرہ کرے بایں طور کہ وہ اپنی زبان کو اس طرح لپیٹ لپیٹ کرباتیں کرے جس طرح گائے اپنے چارے کو لپیٹ لپیٹ کر جلدی جلدی اپنی زبان سے کھاتی ہیں اس روایت کو ترمذی اور ابوداؤد نے نقل کیا ہے نیز ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح۔
مطلب یہ ہے کہ زبان درازی اور طاقت نسائی کوئی اچھی چیز نہیں ہے اپنی زبان اور کلام میں خواہ مخواہ کے لئے حد سے زیادہ فصاحت وبلاغت کا مظاہرہ کرنا، حاشیہ آرائی اور مبالغہ آمیزی کے ساتھ اپنی بات کو پیش کرنا اور الفاظ کو چباچباکر اور زبان کو لپیٹ لپیٹ کر چکنی چپٹی باتیں کرنا احمق لوگ کے نزدیک تو ایک وصف سمجھاجاتا ہے لیکن جو دانش مند اور عاقل لوگ اس وصف کے پیچھے چھپی ہوئی برائی کو دیکھتے ہیں کہ عام طور پر اس طرح باتیں بنانے والے لوگ جھوٹے اور حیلہ باز ہوتے ہیں ان کے نزدیک اس وصف کا کوئی اعتبار نہیں اور اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا شخص اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے لہذا چھا کلام وہی ہے جوضرورت کے بقدر اور سیدھا سادا ہو نیز جس سے یہ واضح ہو کہ متکلم کے ظاہری الفاظ، اس کی باطنی کیفیات کے ہم آہنگ ہیں جوشریعت کا تقاضا بھی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں