عید کی نماز کے لئے اذان نہیں ہے
راوی: محمد بن کثیر سفیان بن عبدالرحمن بن عابس
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ قَالَ سَأَلَ رَجُلٌ ابْنَ عَبَّاسٍ أَشَهِدْتَ الْعِيدَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَعَمْ وَلَوْلَا مَنْزِلَتِي مِنْهُ مَا شَهِدْتُهُ مِنْ الصِّغَرِ فَأَتَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَلَمَ الَّذِي عِنْدَ دَارِ کَثِيرِ بْنِ الصَّلْتِ فَصَلَّی ثُمَّ خَطَبَ وَلَمْ يَذْکُرْ أَذَانًا وَلَا إِقَامَةً قَالَ ثُمَّ أَمَرَنَا بِالصَّدَقَةِ قَالَ فَجَعَلَ النِّسَائُ يُشِرْنَ إِلَی آذَانِهِنَّ وَحُلُوقِهِنَّ قَالَ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَتَاهُنَّ ثُمَّ رَجَعَ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
محمد بن کثیر سفیان بن حضرت عبدالرحمن بن عابس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عبداللہ بن عباس سے پوچھا کہ کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس عید کی نماز پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں اگر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ میں میری قدرو منزلت نہ ہوتی تو میں اپنی کم عمری کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب کھڑا نہیں ہو سکتا تھاپس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھی اور اس کے بعد خطبہ دیا۔ (مگر ابن عباس نے) اذان اور اقامت کا ذکر نہیں کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ کا حکم دیا تو عورتیں اپنے گلوں اور کانوں سے زیورات اتارنے لگیں پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم کیا اور وہ صدقہ لینے عورتوں کے پاس آئے اور صدقہ لے کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لوٹ گئے۔
