صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ جہاد اور سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ حدیث 393

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفاء کرام کے ہمراہ رہ کر جہاد کرنے والے کے مال میں بحالت زیست و مرگ برکت ہونے کا بیان

راوی: اسحق ابواسامہ ہشام عروہ عبدالرحمن بن زبیر

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي أُسَامَةَ أَحَدَّثَکُمْ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ لَمَّا وَقَفَ الزُّبَيْرُ يَوْمَ الْجَمَلِ دَعَانِي فَقُمْتُ إِلَی جَنْبِهِ فَقَالَ يَا بُنَيِّ إِنَّهُ لَا يُقْتَلُ الْيَوْمَ إِلَّا ظَالِمٌ أَوْ مَظْلُومٌ وَإِنِّي لَا أُرَانِي إِلَّا سَأُقْتَلُ الْيَوْمَ مَظْلُومًا وَإِنَّ مِنْ أَکْبَرِ هَمِّي لَدَيْنِي أَفَتُرَی يُبْقِي دَيْنُنَا مِنْ مَالِنَا شَيْئًا فَقَالَ يَا بُنَيِّ بِعْ مَالَنَا فَاقْضِ دَيْنِي وَأَوْصَی بِالثُّلُثِ وَثُلُثِهِ لِبَنِيهِ يَعْنِي بَنِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ يَقُولُ ثُلُثُ الثُّلُثِ فَإِنْ فَضَلَ مِنْ مَالِنَا فَضْلٌ بَعْدَ قَضَائِ الدَّيْنِ شَيْئٌ فَثُلُثُهُ لِوَلَدِکَ قَالَ هِشَامٌ وَکَانَ بَعْضُ وَلَدِ عَبْدِ اللَّهِ قَدْ وَازَی بَعْضَ بَنِي الزُّبَيْرِ خُبَيْبٌ وَعَبَّادٌ وَلَهُ يَوْمَئِذٍ تِسْعَةُ بَنِينَ وَتِسْعُ بَنَاتٍ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَجَعَلَ يُوصِينِي بِدَيْنِهِ وَيَقُولُ يَا بُنَيِّ إِنْ عَجَزْتَ عَنْهُ فِي شَيْئٍ فَاسْتَعِنْ عَلَيْهِ مَوْلَايَ قَالَ فَوَاللَّهِ مَا دَرَيْتُ مَا أَرَادَ حَتَّی قُلْتُ يَا أَبَةِ مَنْ مَوْلَاکَ قَالَ اللَّهُ قَالَ فَوَاللَّهِ مَا وَقَعْتُ فِي کُرْبَةٍ مِنْ دَيْنِهِ إِلَّا قُلْتُ يَا مَوْلَی الزُّبَيْرِ اقْضِ عَنْهُ دَيْنَهُ فَيَقْضِيهِ فَقُتِلَ الزُّبَيْرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَلَمْ يَدَعْ دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا إِلَّا أَرَضِينَ مِنْهَا الْغَابَةُ وَإِحْدَی عَشْرَةَ دَارًا بِالْمَدِينَةِ وَدَارَيْنِ بِالْبَصْرَةِ وَدَارًا بِالْکُوفَةِ وَدَارًا بِمِصْرَ قَالَ وَإِنَّمَا کَانَ دَيْنُهُ الَّذِي عَلَيْهِ أَنَّ الرَّجُلَ کَانَ يَأْتِيهِ بِالْمَالِ فَيَسْتَوْدِعُهُ إِيَّاهُ فَيَقُولُ الزُّبَيْرُ لَا وَلَکِنَّهُ سَلَفٌ فَإِنِّي أَخْشَی عَلَيْهِ الضَّيْعَةَ وَمَا وَلِيَ إِمَارَةً قَطُّ وَلَا جِبَايَةَ خَرَاجٍ وَلَا شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَکُونَ فِي غَزْوَةٍ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ مَعَ أَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ فَحَسَبْتُ مَا عَلَيْهِ مِنْ الدَّيْنِ فَوَجَدْتُهُ أَلْفَيْ أَلْفٍ وَمِائَتَيْ أَلْفٍ قَالَ فَلَقِيَ حَکِيمُ بْنُ حِزَامٍ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ فَقَالَ يَا ابْنَ أَخِي کَمْ عَلَی أَخِي مِنْ الدَّيْنِ فَکَتَمَهُ فَقَالَ مِائَةُ أَلْفٍ فَقَالَ حَکِيمٌ وَاللَّهِ مَا أُرَی أَمْوَالَکُمْ تَسَعُ لِهَذِهِ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ أَفَرَأَيْتَکَ إِنْ کَانَتْ أَلْفَيْ أَلْفٍ وَمِائَتَيْ أَلْفٍ قَالَ مَا أُرَاکُمْ تُطِيقُونَ هَذَا فَإِنْ عَجَزْتُمْ عَنْ شَيْئٍ مِنْهُ فَاسْتَعِينُوا بِي قَالَ وَکَانَ الزُّبَيْرُ اشْتَرَی الْغَابَةَ بِسَبْعِينَ وَمِائَةِ أَلْفٍ فَبَاعَهَا عَبْدُ اللَّهِ بِأَلْفِ أَلْفٍ وَسِتِّ مِائَةِ أَلْفٍ ثُمَّ قَامَ فَقَالَ مَنْ کَانَ لَهُ عَلَی الزُّبَيْرِ حَقٌّ فَلْيُوَافِنَا بِالْغَابَةِ فَأَتَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ وَکَانَ لَهُ عَلَی الزُّبَيْرِ أَرْبَعُ مِائَةِ أَلْفٍ فَقَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ إِنْ شِئْتُمْ تَرَکْتُهَا لَکُمْ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ لَا قَالَ فَإِنْ شِئْتُمْ جَعَلْتُمُوهَا فِيمَا تُؤَخِّرُونَ إِنْ أَخَّرْتُمْ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ لَا قَالَ قَالَ فَاقْطَعُوا لِي قِطْعَةً فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ لَکَ مِنْ هَاهُنَا إِلَی هَاهُنَا قَالَ فَبَاعَ مِنْهَا فَقَضَی دَيْنَهُ فَأَوْفَاهُ وَبَقِيَ مِنْهَا أَرْبَعَةُ أَسْهُمٍ وَنِصْفٌ فَقَدِمَ عَلَی مُعَاوِيَةَ وَعِنْدَهُ عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ وَالْمُنْذِرُ بْنُ الزُّبَيْرِ وَابْنُ زَمْعَةَ فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ کَمْ قُوِّمَتْ الْغَابَةُ قَالَ کُلُّ سَهْمٍ مِائَةَ أَلْفٍ قَالَ کَمْ بَقِيَ قَالَ أَرْبَعَةُ أَسْهُمٍ وَنِصْفٌ قَالَ الْمُنْذِرُ بْنُ الزُّبَيْرِ قَدْ أَخَذْتُ سَهْمًا بِمِائَةِ أَلْفٍ قَالَ عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ قَدْ أَخَذْتُ سَهْمًا بِمِائَةِ أَلْفٍ وَقَالَ ابْنُ زَمْعَةَ قَدْ أَخَذْتُ سَهْمًا بِمِائَةِ أَلْفٍ فَقَالَ مُعَاوِيَةُ کَمْ بَقِيَ فَقَالَ سَهْمٌ وَنِصْفٌ قَالَ قَدْ أَخَذْتُهُ بِخَمْسِينَ وَمِائَةِ أَلْفٍ قَالَ وَبَاعَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ نَصِيبَهُ مِنْ مُعَاوِيَةَ بِسِتِّ مِائَةِ أَلْفٍ فَلَمَّا فَرَغَ ابْنُ الزُّبَيْرِ مِنْ قَضَائِ دَيْنِهِ قَالَ بَنُو الزُّبَيْرِ اقْسِمْ بَيْنَنَا مِيرَاثَنَا قَالَ لَا وَاللَّهِ لَا أَقْسِمُ بَيْنَکُمْ حَتَّی أُنَادِيَ بِالْمَوْسِمِ أَرْبَعَ سِنِينَ أَلَا مَنْ کَانَ لَهُ عَلَی الزُّبَيْرِ دَيْنٌ فَلْيَأْتِنَا فَلْنَقْضِهِ قَالَ فَجَعَلَ کُلَّ سَنَةٍ يُنَادِي بِالْمَوْسِمِ فَلَمَّا مَضَی أَرْبَعُ سِنِينَ قَسَمَ بَيْنَهُمْ قَالَ فَکَانَ لِلزُّبَيْرِ أَرْبَعُ نِسْوَةٍ وَرَفَعَ الثُّلُثَ فَأَصَابَ کُلَّ امْرَأَةٍ أَلْفُ أَلْفٍ وَمِائَتَا أَلْفٍ فَجَمِيعُ مَالِهِ خَمْسُونَ أَلْفَ أَلْفٍ وَمِائَتَا أَلْفٍ

اسحاق ابواسامہ ہشام عروہ عبدالرحمن بن زبیر سے روایت کرتے ہیں کہ والد ماجد حضرت زبیر جب میدان جمل میں کھڑے ہوئے تو مجھے طلب فرمایا میں آکر ان کے پہلو میں کھڑا ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ اے بیٹے! آج یا تو ظالم کو قتل کیا جائے گا یا ایک مظلوم کو تہ تیغ کیا جائے گا اور مجھے نظر آرہا ہے کہ میں مظلوم کی حیثیت سے مارا جاؤں گا اور مجھے سب سے بڑی فکر اپنے قرضہ کی لگی ہوئی ہے (میں مقروض ہوں) میرا قرض ادا کرکے کیا میری دولت باقی بچ سکتی ہے؟ اور اے میرے بیٹے! اب تم میرا مال فروخت کرکے میرا قرض ادا کردو اور انہوں نے تہائی کے مال کی میرے لئے وصیت کی تھی اور میری اسی تہائی میں سے میری اولاد کے لئے وصیت کی انہوں نے کہا کہ اس تہائی مال کے تین حصہ کردینا عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ تہائی میں سے ایک تہائی کی تقسیم کو کہا تھا اس لئے کہ ادائے قرض کے بعد ہمارے مال میں سے جو کچھ فاضل بچ جائے تو اس کا تیسرا حصہ تمہاری اولاد کے لئے ہے ہشام کا بیان ہے کہ عبداللہ کے بعض لڑکے حضرت زبیر کے بعض بیٹوں کے ہم عمر تھے جیسے خبیب اور عبادہ اور ان کے نو بیٹے اور نو بیٹیاں تھیں عبداللہ کا بیان ہے کہ پھر انہوں نے مجھے اپنے اوپر کے قرض کو جلد ادا کرنے کی وصیت کی اور کہا اے بیٹے! اگر تم کسی امر میں عاجز ہو جاؤ تو اس میں میرے مولا سے امداد حاصل کرنا عبداللہ کا بیان ہے کہ اللہ کی قسم میں نہیں سمجھا کہ اس جملہ سے ان کی کیا مراد تھی لہذا میں نے پوچھا ابا جان! آپ کا مولا کون ہے جواب دیا اللہ تعالیٰ عبداللہ کہتے ہیں اللہ کی قسم! مجھ پر ان کا قرض ادا کرنے میں جب کوئی مصیبت پڑی تو میں نے کہا اے مولائے زبیر تو ہی ان کا قرض ادا کرے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ذمہ کا قرض ادا کردیا حضرت زبیر شہید ہو گئے اور کوئی دینار یا درہم نہیں چھوڑا البتہ زمینیں ورثہ میں چھوڑیں ایک کا نام غابہ ہے علاوہ ازیں مدینہ منورہ میں گیارہ مکانات بصرہ میں دو کوفہ اور مصر میں ایک ایک مکان چھوڑا عبداللہ کا بیان ہے کہ ان کے ذمہ قرض کی حالت یہ تھی کہ کوئی شخص ان کے پاس اپنا مال امانت کے طور پر رکھنا چاہتا تو وہ اس کو جواب دیتے کہ میں اس مال کو بطور امانت نہیں رکھتا البتہ بطور قرض کے لے لیتا ہوں کیونکہ مجھے اس کے گم ہو جانے کا ڈر لگا ہوا ہے اور انہوں نے کبھی حاکم اعلیٰ ہونا خراج حاصل کرنا اور کسی چیز کا تول کرنا پسند نہیں کیا ان کا محبوب مشغلہ یہ تھا کہ وہ سرور عالم یا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ میدان جہاد میں جایا کرتے تھے عبداللہ بن زبیر کا بیان ہے کہ جب میں نے ان کے ذمہ قرض کا حساب کیا تو وہ دو کروڑ اور دو لاکھ تھا پھر حکیم بن حزام مجھ ( عبداللہ بن زبیر) سے ملے اور انہوں نے کہا اے بھتیجے! بتاؤ میرے بھائی کے ذمہ کتنا قرض ہے تو میں نے اصل رقم کو ظاہر نہ کر کے کہا ایک لاکھ جس پر حکیم بن حزان نے کہا واللہ میں جانتا ہوں کہ تم میں اس کی ادائیگی کی قدرت نہیں تو میں نے ان سے کہا آپ پر اگر میں ظاہر کردوں کہ ان کے ذمہ قرض کی رقم کی مقدار دو کروڑ اور دو لاکھ ہے تو حکیم بن حزام نے جواب دیا کہ تم میں اس کی ادائیگی کی سکت ہی نہیں ہے اور اگر تم اس کی ادائیگی سے عاجز ہو جاؤ تو مجھ سے مدد لے لینا حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غابہ کی زمین کو ایک لاکھ ستر ہزار میں خریدا تھا جس کو میں (عبد اللہ) نے سولہ لاکھ میں فروخت کردیا اور لوگوں سے کہا کہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذمہ جس کسی کا کوئی حق ہو تو وہ ہمارے پاس غابہ میں آئے چنانچہ عبداللہ بن جعفر نے آکر کہا کہ میرے چار لاکھ کے زبیر مقروض تھے اگر تم چاہتے ہو تو میں یہ رقم تمہارے لئے چھوڑے دیتا ہوں تو میں نے جواب دیا جی نہیں میں رقم معاف کرانا نہیں چاہتا تو عبداللہ بن جعفر نے کہا تو اچھا ایسا کرو کہ سب سے آخر میں میرے قرضہ کو رکھو جس پر میں نے جواب دیا جی یہ بھی نہیں ہو سکتا تو پھر عبداللہ بن جعفر نے کہا اس زمین کا ایک قطعہ یہ مجھے دے دو تو میں (عبد اللہ) نے کہا یہاں سے وہاں تک دیا جاتا ہے راوی کا بیان ہے کہ وہ قطعہ انہوں نے ان کے ہاتھ بیچ ڈالا اور ان کا قرض ادا کرنے کے بعد بھی اس زمین کے ساڑھے چار حصے باقی رہے اس کے بعد عبداللہ بن زبیر نے معاویہ کے پاس جا کر ملاقات کی جہاں عمرو بن عثمان نذر بن زبیر ابن زمعہ بیٹھے ہوئے تھے تو معاویہ نے پوچھا غابہ کی زمین کی کتنی قیمت لگی ہے تو عبداللہ بن زبیر نے کہا ہر حصہ کی قیمت ایک لاکھ تک آتی ہے اس پر امیر معاویہ نے پوچھا اب کتنے حصے باقی ہیں جواب دیا ساڑھے چار حصے منذر بن زبیر نے کہا ایک حصہ تو میں ایک لاکھ میں خرید لیتا ہوں عمرو بن عثمان نے کہا ایک لاکھ کا ایک حصہ میں لے رہا ہوں ابن زمعہ نے کہا ایک لاکھ کا حصہ میرا ہے پھر امیر معاویہ نے پوچھا اب کتنے حصے باقی رہے میں نے جواب دیا ڈیڑھ حصہ تو انہوں نے کہا اس کو میں ڈیڑھ لاکھ میں خرید لیتا ہوں راوی کا بیان ہے کہ پھر عبداللہ بن جعفر نے اپنا خریدا ہوا حصہ امیر معاویہ کے ہاتھ چھ لاکھ میں فروخت کیا اس کے بعد جب ابن زبیر اپنے والد کا قرضہ ادا کرنے سے فارغ ہو گئے تو ان کے دوسرے بھائیوں نے کہا ہماری میراث ہم میں بانٹ دیجئے جس پر عبداللہ بن زبیر نے کہا میں تمہارے حصے تم کو اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک مسلسل چار سال تک زمانہ حج میں یہ اعلان نہ کرلوں کہ جس کا کوئی قرض زبیر پر ہو وہ ہمارے پاس آئے تاکہ وہ قرض اس کا ادا کردیں۔ راوی کا بیان ہے کہ عبداللہ بن زبیر نے پھر چار سال تک حج کے زمانہ میں اپنے والد کے قرضہ کی ادائیگی کے لئے لوگوں میں اعلان کیا اور چار سال کے بعد اپنے بھائیوں میں ترکہ کی تقسیم کردی اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی چار بیویاں تھیں عبداللہ بن زبیر نے مال کی ایک تہائی اٹھا رکھی تھیچنانچہ ہر بیوی کو دو لاکھ اور دس دس ہزار کی رقم ملی الحاصل زبیر کا تمام مال پانچ کروڑ اور دو لاکھ کا ہوا۔

Narrated 'Abdullah bin Az-Zubair:
When Az-Zubair got up during the battle of Al-Jamal, he called me and I stood up beside him, and he said to me, "O my son! Today one will be killed either as an oppressor or as an oppressed one. I see that I will be killed as an oppressed one. My biggest worry is my debts. Do you think, if we pay the debts, there will be something left for us from our money?" Az-Zubair added, "O my son! Sell our property and pay my debts." Az-Zubair then willed one-third of his property and willed one-third of that portion to his sons; namely, 'Abdullah's sons. He said, "One-third of the one third. If any property is left after the payment of the debts, one-third (of the one-third of what is left) is to be given to your sons." (Hisham, a sub-narrator added, "Some of the sons of 'Abdullah were equal in age to the sons of Az-Zubair e.g. Khubaib and 'Abbas. 'Abdullah had nine sons and nine daughters at that time." (The narrator 'Abdullah added:) My father (Az-Zubair) went on drawing my attention to his debts saying, "If you should fail to pay part of the debts, appeal to my Master to help you." By Allah! I could not understand what he meant till I asked, "O father! Who is your Master?" He replied, "Allah (is my Master)." By Allah, whenever I had any difficulty regarding his debts, I would say, "Master of Az-Zubair! Pay his debts on his behalf ." and Allah would (help me to) pay it. Az-Zubair was martyred leaving no Dinar or Dirham but two pieces of land, one of which was (called) Al-Ghaba, and eleven houses in Medina, two in Basra, one in Kufa and one in Egypt. In fact, the source of the debt which he owed was, that if somebody brought some money to deposit with him. Az Zubair would say, "No, (i won't keep it as a trust), but I take it as a debt, for I am afraid it might be lost." Az-Zubair was never appointed governor or collector of the tax of Kharaj or any other similar thing, but he collected his wealth (from the war booty he gained) during the holy battles he took part in, in the company of the Prophet, Abu Bakr, 'Umar, and 'Uthman. ('Abdullah bin Az-Zubair added:) When I counted his debt, it turned to be two million and two hundred thousand. (The sub-narrator added:) Hakim bin Hizam met Abdullah bin Zubair and asked, "O my nephew! How much is the debt of my brother?" 'Abdullah kept it as a secret and said, "One hundred thousand," Hakim said, "By Allah! I don't think your property will cover it." On that 'Abdullah said to him, "What if it is two million and two hundred thousand?" Hakim said, "I don't think you can pay it; so if you are unable to pay all of it, I will help you." Az-Zubair had already bought Al-Ghaba for one hundred and seventy thousand. 'Abdullah sold it for one million and six hundred thousand. Then he called the people saying, "Any person who has any money claim on Az-Zubair should come to us in Al-Ghaba." There came to him 'Abdullah bin Ja'far whom Az-Zubair owed four hundred thousand. He said to 'Abdullah bin Az-Zubair, "If you wish I will forgive you the debt." 'Abdullah (bin Az-Zubair) said, "No." Then Ibn Ja'far said, "If you wish you can defer the payment if you should defer the payment of any debt." Ibn Az-Zubair said, "No." 'Abdullah bin Ja'far said, "Give me a piece of the land." 'Abdullah bin AzZubair said (to him), "Yours is the land extending from this place to this place." So, 'Abdullah bin Az-Zubair sold some of the property (including the houses) and paid his debt perfectly, retaining four and a half shares from the land (i.e. Al-Ghaba). He then went to Mu'awlya while 'Amr bin 'Uthman, Al-Mundhir bin Az-Zubair and Ibn Zam'a were sitting with him. Mu'awiya asked, "At what price have you appraised Al-Ghaba?" He said, "One hundred thousand for each share," Muawiya asked, "How many shares have been left?" 'Abdullah replied, "Four and a half shares." Al-Mundhir bin Az-Zubair said, "I would like to buy one share for one hundred thousand." 'Amr bin 'Uthman said, "I would like to buy one share for one hundred thousand." Ibn Zam'a said, "I would like to buy one share for one hundred thousand." Muawiya said, "How much is left now?" 'Abdullah replied, "One share and a half." Muawiya said, "I would like to buy it for one hundred and fifty thousand." 'Abdullah also sold his part to Muawiya six hundred thousand. When Ibn AzZubair had paid all the debts. Az-Zubair's sons said to him, "Distribute our inheritance among us." He said, "No, by Allah, I will not distribute it among you till I announce in four successive Hajj seasons, 'Would those who have money claims on Az-Zubair come so that we may pay them their debt." So, he started to announce that in public in every Hajj season, and when four years had elapsed, he distributed the inheritance among the inheritors. Az-Zubair had four wives, and after the one-third of his property was excluded (according to the will), each of his wives received one million and two hundred thousand. So the total amount of his property was fifty million and two hundred thousand.

یہ حدیث شیئر کریں