مسافر مغرب کی نماز اور نماز عشاء کون سے وقت جمع کر کے پڑھے
راوی: محمود بن خالد , ولید , ابن جابر , نافع
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ جَابِرٍ قَالَ حَدَّثَنِي نَافِعٌ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فِي سَفَرٍ يُرِيدُ أَرْضًا فَأَتَاهُ آتٍ فَقَالَ إِنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ أَبِي عُبَيْدٍ لِمَا بِهَا فَانْظُرْ أَنْ تُدْرِکَهَا فَخَرَجَ مُسْرِعًا وَمَعَهُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُسَايِرُهُ وَغَابَتْ الشَّمْسُ فَلَمْ يُصَلِّ الصَّلَاةَ وَکَانَ عَهْدِي بِهِ وَهُوَ يُحَافِظُ عَلَی الصَّلَاةِ فَلَمَّا أَبْطَأَ قُلْتُ الصَّلَاةَ يَرْحَمُکَ اللَّهُ فَالْتَفَتَ إِلَيَّ وَمَضَی حَتَّی إِذَا کَانَ فِي آخِرِ الشَّفَقِ نَزَلَ فَصَلَّی الْمَغْرِبَ ثُمَّ أَقَامَ الْعِشَائَ وَقَدْ تَوَارَی الشَّفَقُ فَصَلَّی بِنَا ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا عَجِلَ بِهِ السَّيْرُ صَنَعَ هَکَذَا
محمود بن خالد، ولید، ابن جابر، نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں عبداللہ بن عمر کے ساتھ چلا ایک سفر کے لئے وہ اپنی سر زمین میں چلے جا رہے تھے کہ اس دوران ایک شخص پہنچا اور بولا حضرت صفیہ بنت ابی عبید اس قدر علیل ہیں (مرنے والی ہیں) تو تم چل کر زندگی میں ان سے ملاقات کرلو وہ خاتون عبداللہ بن عمر کی اہلیہ محترمہ تھیں یہ بات سن کر جلدی جلدی روانہ ہوئے اور ان کے ہمراہ ایک شخص تھا قبیلہ قریش میں سے جو کہ برابر چل رہا تھا تو سورج غروب ہوگیا اور انہوں نے نماز نہیں پڑھی اور میں یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ نماز کا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں جس وقت انہوں نے تاخیر فرمائی تو میں نے کہا کے تم پر نماز رحمت کی نظر فرمائے۔ یہ سن کر انہوں نے میری جانب دیکھا اور روانہ ہوگئے۔ یہاں تک کہ شفق غروب ہوگئی پھر نماز مغرب اور نماز عشاء ادا فرمائی۔ اس وقت شفق غروب ہوگئی تھی پھر ہماری جانب توجہ فرمائی اور فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جس وقت جلدی ہوتی تھی روانہ ہونے کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طریقہ سے عمل فرمایا کرتے تھے۔
It was narrated that Nafi’ said: “We came back with Ibn ‘Umar from Makkah. One night he kept on travelling until evening came, and we thought that he had forgotten the prayer. We said to him: ‘The prayer!’ But he kept quiet and kept going until the twilight had almost disappeared, then he stopped and prayed, and when the twilight disappeared he prayed ‘Isha’. Then he turned to us and said: This is what we used to do with the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم if he was in a hurry to travel.” (Sahih)
