فتوی دینا اور اس کے بارے میں شدت
راوی:
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ حُرَيْثِ بْنِ ظُهَيْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ أَتَى عَلَيْنَا زَمَانٌ لَسْنَا نَقْضِي وَلَسْنَا هُنَالِكَ وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ قَدَّرَ مِنْ الْأَمْرِ أَنْ قَدْ بَلَغْنَا مَا تَرَوْنَ فَمَنْ عَرَضَ لَهُ قَضَاءٌ بَعْدَ الْيَوْمِ فَلْيَقْضِ فِيهِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَإِنْ جَاءَهُ مَا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنْ جَاءَهُ مَا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَمْ يَقْضِ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ وَلَا يَقُلْ إِنِّي أَخَافُ وَإِنِّي أُرَى فَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ وَالْحَلَالَ بَيِّنٌ وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَةٌ فَدَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ
حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں ہمارے اوپر ایسا زمانہ آگیا ہے جس میں ہم فیصلہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی ہم یہاں رہ سکتے ہیں لیکن بے شک اللہ نے معاملہ طے کر دیا ہے ہم نے تبلیغ کردی ہے۔ جیسا کہ تم جانتے ہو آج کے بعد جس شخص کو کوئی مسئلہ درپیش ہو وہ اس کے بارے میں اللہ کی کتاب میں جو موجود ہے اس کے مطابق فیصلے دے اگر ایسی صورت حال ہو جس کے بارے میں اللہ کی کتاب میں بھی حکم موجود نہ ہو اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کوئی فیصلہ نہ دیا ہو تو وہ اس بارے میں وہ فیصلہ دے جو نیک لوگ فیصلہ کرتے ہیں اور یہ نہ کہے مجھے یہ اندیشہ ہے یا میری رائے ہے کیونکہ حرام واضح ہے اور حلال واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان متشابہہ امور ہیں اس لئے جو چیز تمہیں شک میں مبتلا کرے اسے چھوڑ کر اسے اختیار کر جو شک میں مبتلا نہ کرے۔
