مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ میت کو نہلانے اور کفنانے کا بیان ۔ حدیث 115

محرم کے کفن کا مسئلہ

راوی:

وعن عبد الله بن عباس قال : إن رجلا كان مع النبي صلى الله عليه و سلم فوقصته ناقته وهو محرم فمات ن فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " اغسلوه بماء وسدر وكفنوه في ثوبيه ولا تمسوه بطيب ولا تخمروا رأسه فإنه يبعث يوم القيامة ملبيا "
وسنذكر حديث خباب : قتل مصعب بن عمير في باب جامع المناقب إن شاء الله

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص (سفر حج کے دوران) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھا، اس کی اونٹنی نے (اس کو گرا دیا اور ) اس کی گردن توڑ دی، وہ شخص محرم (یعنی حج کی نیت سے اور احرام باندھے ہوئے) تھا اسی حال میں وہ مرگیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اسے پانی اور بیری کے پتوں سے نہلاؤ اسے اسی کے دونوں کپڑوں میں کفناؤ اور نہ اسے خوشبو لگاؤ نہ اس کا سر ڈھانکو کیونکہ وہ قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھایا جائے گا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص حالت احرام میں انتقال کر جائے تو اسے اسی کے لباس میں کہ جسے وہ بطور احرام استعمال کرتا تھا کفنا دیا جائے اور اس پر خوشبو نہ لگائی جائے۔ چنانچہ حضرت امام شافعی اور امام احمد کا یہی مسلک ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام مالک کے نزدیک کفن کے بارہ میں محرم اور غیر محرم دونوں برابر ہیں۔
جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی کے دونوں کپڑوں میں کہ جسے وہ بطور محرم کے استعمال کرتا تھا کفنانے کا حکم دیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس ان دونوں کپڑوں کے علاوہ اور کوئی کپڑا نہ تھا کہ اسے علیحدہ سے پورا کفن دیا جاتا اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے سر کو ڈھانکنے سے جو منع فرمایا تو یہ ممانعت بھی صرف اس شخص کے لئے تھی عام طور پر سب کے لئے یہ حکم نہیں ہے۔ و سنذکر حدیث خباب قتل مصعب بن عمیر فی باب جامع المناقب ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اور خباب کی وہ حدیث کہ جس کی ابتداء یہ ہے قتل مصعب بن عمیر ہم ان شاء اللہ باب جامع المناقب میں نقل کریں گے۔

یہ حدیث شیئر کریں