مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 1153

غروب آفتاب کے بعد اور مغرب کی نماز سے پہلے نفل نماز پڑھنے کا مسئلہ

راوی:

وَعَنْ اَنَسٍ قَالَ کُنَّا بِالْمَدِےْنَۃِ فَاِذَا اَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ لِصَلٰوۃِ الْمَغْرِبِ اِبْتَدَرُواالسَّوَارِیَ فَرَکَعُوْا رَکْعَتَےْنِ حَتّٰی اِنَّ الرَّجُلَ الْغَرِےْبَ لَےَدْخُلُ الْمَسْجِدَ فَےَحْسِبُ اَنَّ الصَّلٰوۃَ قَدْ صُلِّےَتْ مِنْ کَثْرَۃِ مَنْ ےُّصَلِّےھِمَا۔ (صحیح مسلم)

" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم مدینہ میں تھے (اس وقت یہ حال تھا کہ ) جب مؤذن مغرب کی اذان دیتا تو (بعض صحابہ یا تابعین) مسجد کے ستونوں کی طرف دوڑتے اور دو رکعت نماز پڑھنے لگتے، یہاں تک کہ کوئی (مسافر آدمی اگر مسجد میں آتا تو اکثر لوگوں کو (تنہا تنہا) دو رکعت نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر یہ گمان کرتا کہ نماز ہو چکی ہے (اور اب لوگ سنتیں پڑھ رہے ہیں۔)" (صحیح مسلم)

تشریح
علامہ طیبی شافعی فرماتے ہیں کہ غروب آفتاب کے بعد اور مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت نماز کے اثبات کی یہ حدیث ظاہری دلیل ہے۔ اس سلسلہ میں ملا علی قاری حنفی کے قول کا مفہوم یہ ہے کہ یہ حدیث اس وجہ سے ان دونوں رکعتوں کے اثبات کی دلیل نہیں ہو سکتی کہ اس طریقے کے نادر ہونے میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمومی طور پر مغرب کی نماز کی ادائیگی میں جلدی فرماتے تھے جب کہ ان دونوں رکعتوں کے پڑھنے سے نہ صرف یہ کہ مغرب کی ادائیگی میں تاخیر لازم آتی ہے بلکہ بعض علماء کے قول کے مطابق تو نماز کا اپنے وقت سے خروج ہی لازم آجاتا ہے۔
لہٰذا اس حدیث کی تاویل یا تو یہ کی جائے گی کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ ہمیشہ کا طریقہ نقل نہیں کر رہے بلکہ ہو سکتا ہے کہ کسی ایک دن بعض لوگوں نے یہ طریقہ اختیار کر لیا ہو کہ مغرب کی اذان سنتے ہی مسجد آگئے ہوں اور وہاں نماز مغرب سے پہلے دو رکعت نماز نفل پڑھ لی ہو یا پھر اس کی سب سے بہتر تاویل جیسا کہ بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ پہلے یہ نماز پڑھی جاتی تھی مگر پھر بعد میں اسے چھوڑ دیا گیا، لہٰذا اب اس نماز کا پڑھنا مکروہ ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں