صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 125

جب کسی عالم سے پوچھا جائے کہ تمام لوگوں میں زیادہ جاننے والا کون ہے تو اس کے لئے یہ مستحب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف اس کے علم کو حوالہ کر دے

راوی: عبداللہ بن محمد السندی , سفیان , عمرو , سعید بن جبیر

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ المْسْندِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنَا عَمْرٌو قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَکَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَی لَيْسَ بِمُوسَی بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنَّمَا هُوَ مُوسَی آخَرُ فَقَالَ کَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَامَ مُوسَی النَّبِيُّ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَقَالَ أَنَا أَعْلَمُ فَعَتَبَ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ فَأَوْحَی اللَّهُ إِلَيْهِ أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْکَ قَالَ يَا رَبِّ وَکَيْفَ بِهِ فَقِيلَ لَهُ احْمِلْ حُوتًا فِي مِکْتَلٍ فَإِذَا فَقَدْتَهُ فَهُوَ ثَمَّ فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ مَعَهُ بِفَتَاهُ يُوشَعَ بْنِ نُونٍ وَحَمَلَا حُوتًا فِي مِکْتَلٍ حَتَّی کَانَا عِنْدَ الصَّخْرَةِ وَضَعَا رُئُوسَهُمَا وَنَامَا فَانْسَلَّ الْحُوتُ مِنْ الْمِکْتَلِ فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا وَکَانَ لِمُوسَی وَفَتَاهُ عَجَبًا فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِهِمَا وَيَوْمَهُمَا فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ مُوسَی لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَائَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا وَلَمْ يَجِدْ مُوسَی مَسًّا مِنْ النَّصَبِ حَتَّی جَاوَزَ الْمَکَانَ الَّذِي أُمِرَ بِهِ فَقَالَ لَهُ فَتَاهُ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَی الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ قَالَ مُوسَی ذَلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِي فَارْتَدَّا عَلَی آثَارِهِمَا قَصَصًا فَلَمَّا انْتَهَيَا إِلَی الصَّخْرَةِ إِذَا رَجُلٌ مُسَجًّی بِثَوْبٍ أَوْ قَالَ تَسَجَّی بِثَوْبِهِ فَسَلَّمَ مُوسَی فَقَالَ الْخَضِرُ وَأَنَّی بِأَرْضِکَ السَّلَامُ فَقَالَ أَنَا مُوسَی فَقَالَ مُوسَی بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ قَالَ هَلْ أَتَّبِعُکَ عَلَی أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا قَالَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا يَا مُوسَی إِنِّي عَلَی عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لَا تَعْلَمُهُ أَنْتَ وَأَنْتَ عَلَی عِلْمٍ عَلَّمَکُمُ اللهُ لَا أَعْلَمُهُ قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَائَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَکَ أَمْرًا فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَی سَاحِلِ الْبَحْرِ لَيْسَ لَهُمَا سَفِينَةٌ فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ فَکَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمَا فَعُرِفَ الْخَضِرُ فَحَمَلُوهُمَا بِغَيْرِ نَوْلٍ فَجَائَ عُصْفُورٌ فَوَقَعَ عَلَی حَرْفِ السَّفِينَةِ فَنَقَرَ نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ فِي الْبَحْرِ فَقَالَ الْخَضِرُ يَا مُوسَی مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُکَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ تَعَالیَ إِلَّا کَنَقْرَةِ هَذَا الْعُصْفُورِ فِي الْبَحْرِ فَعَمَدَ الْخَضِرُ إِلَی لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ فَنَزَعَهُ فَقَالَ مُوسَی قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَی سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا قَالَ فَکَانَتْ الْأُولَی مِنْ مُوسَی نِسْيَانًا فَانْطَلَقَا فَإِذَا غُلَامٌ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ مِنْ أَعْلَاهُ فَاقْتَلَعَ رَأْسَهُ بِيَدِهِ فَقَالَ مُوسَی أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَکِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَکَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ وَهَذَا أَوْکَدُ فَانْطَلَقَا حَتَّی إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ قَالَ الْخَضِرُ بِيَدِهِ فَأَقَامَهُ فَقَالَ لَهُ مُوسَی لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِکَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَی لَوَدِدْنَا لَوْ صَبَرَ حَتَّی يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَاقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَابِهِ عَلِيُّ بنُ خَشْرَمٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بنُ عُيَيْنَةَ بِطُوْلِهِ

عبداللہ بن محمد السندی، سفیان، عمرو، سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کہتے ہیں کہ موسیٰ جو خضر سے ہم نشین ہوئے تھے، بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں تھے، وہ کوئی دوسرے موسیٰ ہیں، تو ابن عباس نے کہا کہ (وہ) اللہ کا دشمن جھوٹ بولتا ہے، ہم سے ابی بن کعب نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی کہ موسیٰ (ایک دن) بنی اسرائیل میں خطبہ پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ سب سے زیادہ جاننے والا کون ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ زیادہ جاننے والا میں ہوں، لہذا اللہ نے ان پر عتاب فرمایا کہ انہوں نے علم کو اللہ کے حوالے کیوں نہ کردیا، پھر اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ مجمع البحرین میں ہے وہ تم سے زیادہ جاننے والا ہے، موسیٰ کہنے لگے اے میرے پروردگار! میری ان سے کیسے ملاقات ہوگی؟ تو ان سے کہا گیا کہ مچھلی کو زنبیل میں رکھو اور مجمع البحرین کی طرف چل پڑو، جب اس مچھلی کو نہ پاؤ تو سمجھ لینا کہ وہ بندہ وہیں ہے، موسیٰ علیہ السلام چلے اور اپنے ہمراہ اپنے خادم یوشع بن نون علیہ السلام کو بھی لے لیا، اور ان دونوں نے ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی، یہاں تک کہ جب پتھر کے پاس پہنچے تو دونوں نے اپنے سر (اس پر) رکھ لئے اور سوگئے، مچھلی زنبیل سے نکل گئی اور دریا میں اس نے راستہ بنا لیا، بعد میں (مچھلی کے زندہ ہو جانے سے) موسیٰ اور ان کے خادم کو تعجب ہوا، پھر وہ دونوں باقی رات اور ایک دن چلتے رہے، جب صبح ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ بے شک ہم نے اپنے اس سفر سے تکلیف اٹھائی اور موسیٰ جب تک کہ اس جگہ سے آگے نہیں گئے، جس کا حکم دیا گیا تھا، اس وقت تک انہوں نے کچھ تکلیف محسوس نہیں کی، ان کے خادم نے دیکھا تو مچھلی غائب تھی، تب انہوں نے کہا کہ کیا آپ نے دیکھا جب ہم پتھر کے پاس بیٹھے تھے تو میں مچھلی کا واقعہ کہنا بھول گیا، موسیٰ نے کہا یہی وہ (مقام) ہے، جس کی تلاش کرتے تھے، پھر وہ دونوں اپنے قدموں پر لوٹ گئے، پس جب اس پتھر تک پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی کپڑا اوڑھے ہوئے یا یہ کہا کہ اس نے کپڑا اوڑھ لیا تھا، بیٹھا ہوا ہے موسیٰ نے سلام کیا تو خضر علیہ السلام نے کہا اس مقام میں سلام کہاں ؟ موسیٰ نے کہا میں (یہاں کا رہنے والا نہیں ہوں میں) موسی ٰہوں، خضر علیہ السلام نے کہا بنی اسرائیل کے موسی؟، انہوں نے کہا ہاں، موسیٰ نے کہا کیا میں اس امید پر تمہارے ہمراہ رہوں کہ جو کچھ ہدایت تمہیں سکھائی گئی ہے، مجھے بھی سکھلا دو، انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ رہ کر میری باتوں پر ہرگز صبر نہ کر سکو گے، اے موسی! میں اللہ کے علم میں سے ایک ایسے علم پر (حاوی) ہوں کہ تم اسے نہیں جانتے وہ اللہ نے مجھے سکھایا ہے اور تم ایسے علم پر حاوی ہو جو اللہ نے تمہیں تلقین کیا ہے کہ میں اسے نہیں جانتا، موسیٰ نے کہا انشاء اللہ! تم مجھے صبر کرنے والا پاؤ گے، اور میں کسی بات میں تمہاری نافرمانی نہ کروں گا، پھر وہ دونوں دریا کے کنارے کنارے چلے ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی، اتنے میں ایک کشتی ان کے پاس (سے ہو کر) گذری، تو کشتی والوں سے انہوں نے کہا کہ ہمیں بٹھا لو، خضر علیہ السلام پہچان لئے گئے اور کشتی والوں نے انہیں بے اجرت بٹھا لیا پھر (اسی اثنا میں) ایک چڑیا آئی، اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی اور اس نے ایک چونچ یا دو چونچیں دریا میں ماریں، خضر علیہ السلام بولے کہ اے موسیٰ میرے علم اور تمہارے علم نے اللہ کے علم سے اس چڑیا کی چونچ کی بقدر بھی کم نہیں کیا ہے، پھر خضر علیہ السلام نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ کی طرف قصد کیا اور اسے اکھیڑ ڈالا، موسیٰ کہنے لگے، ان لوگوں نے ہم کو بے کرایہ (لئے ہوئے) بٹھا لیا اور تم نے ان کی کشتی کے ساتھ برائی کا) قصد کیا، اسے توڑ دیا، تاکہ اس کے لوگوں کو غرق کر دو، خضر علیہ السلام نے کہا کیا میں نے تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر میری باتوں پر صبر نہ کر سکو گے، موسیٰ نے کہا جو میں بھول گیا، اس کا مواخدہ مجھ سے نہ کرو اور میرے کام میں مجھ پر تنگی نہ کرو، راوی کہتا ہے کہ پہلی بار موسیٰ سے بھول کر یہ بات اعتراض کی ہوگئی، پھر وہ دونوں کشتی سے اتر کر چلے، تو ایک لڑکا ملا جو اور لڑکوں کے ہمراہ کھیل رہا تھا، خضر علیہ السلام اس کا سر اوپر سے پکڑ لیا اور اپنے ہاتھ سے اس کو اکھیڑ ڈالا، موسیٰ نے کہا کہ ایک بے گناہ بچے کو بے وجہ قتل کردیا، خضر علیہ السلام نے کہا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر میری باتوں پر ہرگز صبر نہ کر سکو گے، پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ ایک گاؤں کے لوگوں کے پاس پہنچے، وہاں کے رہنے والوں سے انہوں نے کھانا مانگا، ان لوگوں نے ان کی مہمان نوازی کرنے سے انکار کر دیا، پھر وہاں ایک دیوار ایسی دیکھی جو گرنے کے قریب تھی، خضر نے اپنے ہاتھ سے اس کو سہارا دیا اور اس کو درست کردیا، موسیٰ نے ان سے کہا کہ اگر تم چاہتے تو اس پر کچھ اجرت لے لیتے، خضر بولے کہ (بس اب) یہی ہمارے اور تمہارے درمیان جدائی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں تک بیان فرما کر ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ موسیٰ پر رحم کرے، ہم یہ چاہتے تھے کہ کاش موسیٰ صبر کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کا (پورا) قصہ ہم سے بیان فرماتا۔

Narrated Said bin Jubair: I said to Ibn 'Abbas, "Nauf-Al-Bakali claims that Moses (the companion of Khadir) was not the Moses of Bani Israel but he was another Moses." Ibn 'Abbas remarked that the enemy of Allah (Nauf) was a liar. Narrated Ubai bin Ka'b: The Prophet said, "Once the Prophet Moses stood up and addressed Bani Israel. He was asked, "Who is the most learned man amongst the people. He said, "I am the most learned." Allah admonished Moses as he did not attribute absolute knowledge to Him (Allah). So Allah inspired to him "At the junction of the two seas there is a slave amongst my slaves who is more learned than you." Moses said, "O my Lord! How can I meet him?" Allah said: Take a fish in a large basket (and proceed) and you will find him at the place where you will lose the fish. So Moses set out along with his (servant) boy, Yusha' bin Nuin and carried a fish in a large basket till they reached a rock, where they laid their heads (i.e. lay down) and slept. The fish came out of the basket and it took its way into the sea as in a tunnel. So it was an amazing thing for both Moses and his (servant) boy. They proceeded for the rest of that night and the following day. When the day broke, Moses said to his (servant) boy: "Bring us our early meal. No doubt, we have suffered much fatigue in this journey." Moses did not get tired till he passed the place about which he was told. There the (servant) boy told Moses, "Do you remember when we betook ourselves to the rock, I indeed forgot the fish." Moses remarked, "That is what we have been seeking. So they went back retracing their foot-steps, till they reached the rock. There they saw a man covered with a garment (or covering himself with his own garment). Moses greeted him. Al-Khadir replied saying, "How do people greet each other in your land?" Moses said, "I am Moses." He asked, "The Moses of Bani Israel?" Moses replied in the affirmative and added, "May I follow you so that you teach me of that knowledge which you have been taught." Al-Khadir replied, "Verily! You will not be able to remain patient with me, O Moses! I have some of the knowledge of Allah which He has taught me and which you do not know, while you have some knowledge which Allah has taught you which I do not know." Moses said, "Allah willing, you will find me patient and I will not disobey you in aught. So both of them set out walking along the sea-shore, as they did not have a boat. In the meantime a boat passed by them and they requested the crew of the boat to take them on board. The crew recognized Al-Khadir and took them on board without fare. Then a sparrow came and stood on the edge of the boat and dipped its beak once or twice in the sea. Al-Khadir said: "O Moses! My knowledge and your knowledge have not decreased Allah's knowledge except as much as this sparrow has decreased the water of the sea with its beak." Al-Khadir went to one of the planks of the boat and plucked it out. Moses said, "These people gave us a free lift but you have broken their boat and scuttled it so as to drown its people." Al-Khadir replied, "Didn't I tell you that you will not be able to remain patient with me." Moses said, "Call me not to account for what I forgot." The first (excuse) of Moses was that he had forgotten. Then they proceeded further and found a boy playing with other boys. Al-Khadir took hold of the boy's head from the top and plucked it out with his hands (i.e. killed him). Moses said, "Have you killed an innocent soul who has killed none." Al-Kha,dir replied, "Did I not tell you that you cannot remain patient with me?" Then they both proceeded till when they came to the people of a town, they asked them for food, but they refused to entertain them. Then they found there a wall on the point of collapsing. Al-Khadir repaired it with his own hands. Moses said, "If you had wished, surely you could have taken wages for it." Al-Khadir replied, "This is the parting between you and me." The Prophet added, "May Allah be Merciful to Moses! Would that he could have been more patient to learn more about his story with Al-Khadir."

یہ حدیث شیئر کریں