مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 22

توحید کی اہمیت

راوی:

عَنْ مُّعَاذٍص قَالَ کُنْتُ رِدْفَ النَّبِیِِّ صلی اللہ علیہ وسلم عَلٰی حِمَارٍ لَّےْسَ بَےْنِیْ وَبَےْنَہُ اِلَّا مُؤَخِّرَۃُ الرَّحْلِ فَقَالَ ےَا مُعَاذُ ھَلْ تَدْرِیْ مَا حَقُّ اللّٰہِ عَلٰی عِبَادِہٖ وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰہِ قُلْتُ اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمُ قَالَ فَاِنَّ حَقَّ اللّٰہِ عَلَی الْعِبَادِ اَنْ ےَّعْبُدُوْہُ وَلَا ےُشْرِکُوْا بِہٖ شَےْئًا وَحَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰہِ اَنْ لَّا ےُعَذِّبَ مَنْ لَّا ےُشْرِکُ بِہٖ شَےْئًا فَقُلْتُ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَفَلَا اُبَشِّرُ بِہِ النَّاسَ قَالَ لَا تُبَشِّرْھُمْ فَےَتَّکِلُوْا۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" اور حضرت معاذ ( آپ کی کنیت ابوعبدالرحمن ہے لیکن معاذ بن جبل کے نام سے معروف ہیں انصاری صحابی ہیں۔٤٨ سال کی عمر میں ١٨ھ میں وفات پائی۔) فرماتے ہیں کہ (ایک سفر کے دوران سواری کے) گدھے پر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا، میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صرف کجاوے کا پچھلا حصہ حائل تھا، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھ سے) فرمایا معاذ ! جانتے ہو بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) ہی بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ پر بندوں کا یہ حق ہے کہ جس نے کسی کو اللہ کا شریک نہ ٹھہرایا ہو ، اسے عذاب نہ دے (یہ سن کر) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں یہ خوشخبری لوگوں کو سنا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ لوگوں کو یہ خوشخبری نہ سناؤ کیونکہ وہ اسی پر بھروسہ کر بیٹھیں گے (اور عمل کرنا چھوڑ دیں گے)۔ " (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

تشریح
عرب کے گدھے ہماری طرف کے گھوڑوں سے بھی زیادہ تیز اور طاقتور ہوتے ہیں اس لئے وہاں سواری کے لئے گدھے بھی استعمال کئے جاتے تھے اور ان پر سواری کی جاتی تھی۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس نے اللہ کو ایک مان لیا اس کی الوہیت و ربوبیت اور اس کی بھیجی ہوئی رسالت پر ایمان لے آیا اور اس کی عبادت و پرستش میں کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا تو اس پر عذاب نہیں ہوگا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی آدمی اللہ اور اللہ کے رسول پر ایمان لے آیا اور شرک کا مرتکب نہیں ہوا تو اس پر دوزخ کی آگ بالکل حرام ہو جائے گی۔ اگرچہ وہ کتنا ہی بد عمل اور بدکار ہو۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین اور کفار کی طرح اس پر ہمیشہ کے لئے عذاب مسلط نہیں کیا جائے گا اور نہ وہ ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا بلکہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر آخر کار اسے جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔

یہ حدیث شیئر کریں