حضرت ابورمثہ تیمی رضی اللہ عنہ کی مرویات
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ عَنْ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ عَنْ أَبِي رِمْثَةَ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَخْطُبُ وَيَقُولُ يَدُ الْمُعْطِي الْعُلْيَا أُمَّكَ وَأَبَاكَ وَأُخْتَكَ وَأَخَاكَ وَأَدْنَاكَ فَأَدْنَاكَ قَالَ فَدَخَلَ نَفَرٌ مِنْ بَنِي ثَعْلَبَةَ بْنِ يَرْبُوعٍ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَؤُلَاءِ النَّفَرُ الْيَرْبُوعِيُّونَ الَّذِينَ قَتَلُوا فُلَانًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا لَا تَجْنِي نَفْسٌ عَلَى أُخْرَى مَرَّتَيْنِ حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارٍ هُوَ ابْنُ الرَّيَّانِ حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ الْأَسَدِيُّ عَنْ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ عَنْ أَبِي رِمْثَةَ قَالَ انْطَلَقْتُ مَعَ أَبِي وَأَنَا غُلَامٌ فَأَتَيْنَا رَجُلًا فِي الْهَاجِرَةِ جَالِسًا فِي ظِلِّ بَيْتٍ عَلَيْهِ بُرْدَانِ أَخْضَرَانِ وَشَعْرُهُ وَفْرَةٌ وَبِرَأْسِهِ رَدْعٌ مِنْ حِنَّاءٍ قَالَ فَقَالَ لِي أَبِي أَتَدْرِي مَنْ هَذَا فَقُلْتُ لَا قَالَ هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَهُ
حضرت ابورمثہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دیتے ہوئے فرما رہے تھے کہ دینے والے کا ہاتھ اوپر ہوتا ہے، اپنی والدہ، والد، بہن بھائی اور درجہ بدرجہ قریبی رشتہ داروں کو دیتے رہا کرو، اسی اثناء میں بنو ثعلبہ بن یربوع کے کچھ لوگ آگئے، جنہیں دیکھ کر ایک انصاری کہنے لگا یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ وہی یربوعی لوگ ہیں جنہوں نے فلاں آدمی کو قتل کیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا یاد رکھو! کسی شخص کے جرم کا ذمہ دار کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔
17635۔ حضرت ابورمثہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے والد کے ساتھ حاضر ہوا، ہم نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سبز چادریں زیب تن فرما رکھی ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال گھنے اور سر پر مہندی کا اثر تھا، میرے والد نے پوچھا کیا تم انہیں جانتے ہو؟ میں نے کہا نہیں ، انہوں نے بتایا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
