حضرت جابر انصاری کی مرویات۔
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْمُتَوَكِّلِ قَالَ أَتَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ فَقُلْتُ حَدِّثْنِي بِحَدِيثٍ شَهِدْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ تُوُفِّيَ وَالِدِي وَتَرَكَ عَلَيْهِ عِشْرِينَ وَسْقًا تَمْرًا دَيْنًا وَلَنَا تُمْرَانٌ شَتَّى وَالْعَجْوَةُ لَا يَفِي بِمَا عَلَيْنَا مِنْ الدَّيْنِ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَبَعَثَ إِلَى غَرِيمِي فَأَبَى إِلَّا أَنْ يَأْخُذَ الْعَجْوَةَ كُلَّهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْطَلِقْ فَأَعْطِهِ فَانْطَلَقْتُ إِلَى عَرِيشٍ لَنَا أَنَا وَصَاحِبَةٌ لِي فَصَرَمْنَا تَمْرَنَا وَلَنَا عَنْزٌ نُطْعِمُهَا مِنْ الْحَشَفِ قَدْ سَمُنَتْ إِذَا أَقْبَلَ رَجُلَانِ إِلَيْنَا إِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعُمَرُ فَقُلْتُ مَرْحَبًا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَرْحَبًا يَا عُمَرُ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا جَابِرُ انْطَلِقْ بِنَا حَتَّى نَطُوفَ فِي نَخْلِكَ هَذَا فَقُلْتُ نَعَمْ فَطُفْنَا بِهَا وَأَمَرْتُ بِالْعَنْزِ فَذُبِحَتْ ثُمَّ جِئْنَا بِوِسَادَةٍ فَتَوَسَّدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوِسَادَةٍ مِنْ شَعْرٍ حَشْوُهَا لِيفٌ فَأَمَّا عُمَرُ فَمَا وَجَدْتُ لَهُ مِنْ وِسَادَةٍ ثُمَّ جِئْنَا بِمَائِدَةٍ لَنَا عَلَيْهَا رُطَبٌ وَتَمْرٌ وَلَحْمٌ فَقَدَّمْنَاهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعُمَرَ فَأَكَلَا وَكُنْتُ أَنَا رَجُلًا مِنْ نِشْوِيِّ الْحَيَاءُ فَلَمَّا ذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَضُ قَالَتْ صَاحِبَتِي يَا رَسُولَ اللَّهِ دَعَوَاتٌ مِنْكَ قَالَ نَعَمْ فَبَارَكَ اللَّهُ لَكُمْ قَالَ نَعَمْ فَبَارَكَ اللَّهُ لَكُمْ ثُمَّ بَعَثْتُ بَعْدَ ذَلِكَ إِلَى غُرَمَائِي فَجَاءُوا بِأَحْمِرَةٍ وَجَوَالِيقَ وَقَدْ وَطَّنْتُ نَفْسِي أَنْ أَشْتَرِيَ لَهُمْ مِنْ الْعَجْوَةِ أُوفِيهِمُ الْعَجْوَةَ الَّذِي عَلَى أَبِي فَأَوْفَيْتُهُمْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ عِشْرِينَ وَسْقًا مِنْ الْعَجْوَةِ وَفَضَلَ فَضْلٌ حَسَنٌ فَانْطَلَقْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُبَشِّرُهُ بِمَا سَاقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيَّ فَلَمَّا أَخْبَرْتُهُ قَالَ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ فَقَالَ لِعُمَرَ إِنَّ جَابِرًا قَدْ أَوْفَى غَرِيمَهُ فَجَعَلَ عُمَرُ يَحْمَدُ اللَّهَ
ابومتوکل کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی حدیث سنائی جس کا آپ نے مشاہدہ کیا ہو انہوں نے فرمایا کہ میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ان پر کچھ وسق کھجوروں کا قرض تھا ہمارے پاس مختلف قسم کی چند کھجوریں اور کچھ عجوہ تھی جس سے ہمارا قرض ادا نہیں ہوسکتا تھا چنانچہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ بات ذکر کردی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قرض خواہ کے پاس بھیجا لیکن اس نے سوائے عجوہ کے کوئی دوسری کھجور لینے سے انکار کردیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جا کر اسے عجوہ ہی دیدو چنانچہ میں اپنے خیمے میں پہنچا اور کھجوروں کو کاٹنا شروع کردیا ہمارے پاس ایک بکری بھی تھی جسے ہم گھاس پھوس کھلایا کرتے تھے اور وہ خوب صحت مند ہوگئی تھی ۔ اچانک ہم نے دیکھا کہ دو آدمی چلے آرہے ہیں قریب آئے تو دیکھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر تھے میں نے ان دونوں کو خوش آمدید کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جابر رضی اللہ عنہ ہمارے ساتھ چلو ہم تمہارے باغ کا ایک چکر لگانا چاہتے ہیں میں نے عرض کیا بہت بہتر چنانچہ ہم نے باغ کا ایک چکر لگایا ادھر میں نے اپنی بیوی کو حکم دیا اور اس نے بکری کا بچہ ذبح کرلیا پھر ہم ایک تکیہ لائے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹیک لگائی وہ بالوں کا بنا ہوا تھا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی لیکن حضرت عمر کے لئے دوسرا تکیہ نہ مل سکا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے دسترخوان بچھایا اور اس پر دو طرح کھجوریں اور گوشت لا کر رکھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر کے سامنے پیش کیا ان دونوں نے کھانا تناول فرمایا مجھ پر فطری طور حیاء کا غلبہ تھا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر جانے لگے تو میری بیوی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دعاکی درخواست کی چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے برکت کی دعاکی اس کے بعد میں نے اپنے قرض خواہوں کو بلا بھیجا وہ درانتیاں اور قینچیاں لے کر آگئے لیکن اس ذات کی قسم جس کی دست قدرت میں میری جان ہے میں نے انہیں اس باغ میں بیس وسق عجوہ کھجور ادا کردی اور اس کے باوجود بھی وہ بڑی مقدار میں بچ گئی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خوش خبری سنانے چلا گیا کہ اللہ نے مجھ پر کتنی مہربانی فرمائی ہے جب میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خوش خبری سنائی تو آپ نے دو مرتبہ فرمایا اللھم لک الحمد پھر حضرت عمر سے فرمایا کہ جابر رضی اللہ عنہ نے اپنے قرض خواہوں کا ساراقرض اتاردیا حضرت عمر بھی اللہ کا شکر کرنے لگے۔
