مسند احمد ۔ جلد سوم ۔ حدیث 1296

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی مرویات

حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ مِنْ مِصْرَ يَحُجُّ الْبَيْتَ قَالَ فَرَأَى قَوْمًا جُلُوسًا فَقَالَ مَنْ هَؤُلَاءِ الْقَوْمُ فَقَالُوا قُرَيْشٌ قَالَ فَمَنْ الشَّيْخُ فِيهِمْ قَالُوا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ قَالَ يَا ابْنَ عُمَرَ إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ شَيْءٍ أَوْ أَنْشُدُكَ أَوْ نَشَدْتُكَ بِحُرْمَةِ هَذَا الْبَيْتِ أَتَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانَ فَرَّ يَوْمَ أُحُدٍ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَتَعْلَمُ أَنَّهُ غَابَ عَنْ بَدْرٍ فَلَمْ يَشْهَدْهُ قَالَ نَعَمْ قَالَ وَتَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَّبَ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَكَبَّرَ الْمِصْرِيُّ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ تَعَالَ أُبَيِّنْ لَكَ مَا سَأَلْتَنِي عَنْهُ أَمَّا فِرَارُهُ يَوْمَ أُحُدٍ فَأَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ قَدْ عَفَا عَنْهُ وَغَفَرَ لَهُ وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَدْرٍ فَإِنَّهُ كَانَتْ تَحْتَهُ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنَّهَا مَرِضَتْ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَكَ أَجْرُ رَجُلٍ شَهِدَ بَدْرًا وَسَهْمُهُ وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ فَلَوْ كَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ عُثْمَانَ لَبَعَثَهُ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُثْمَانَ وَكَانَتْ بَيْعَةُ الرِّضْوَانِ بَعْدَمَا ذَهَبَ عُثْمَانُ فَضَرَبَ بِهَا يَدَهُ عَلَى يَدِهِ وَقَالَ هَذِهِ لِعُثْمَانَ قَالَ وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ اذْهَبْ بِهَذَا الْآنَ مَعَكَ

عثمان بن عبداللہ بن موہب رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ مصر سے ایک آدمی حج کے لئے آیا، اس نے حرم شریف میں کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا، اس نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ پتہ چلاکہ قریش، اس نے پوچھا کہ ان میں سب سے بزرگ کون ہیں ؟ لوگون نے بتایا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہماوہ ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے ابن عمر! میں آپ کو اس بیت اللہ کی حرمت کا واسطہ دے کرپوچھتا ہوں کہ کیا آپ جانتے ہیں ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ غزوہ احد کے دن بھاگے تھے؟ انہوں نے کہا ہاں ! پھر اس نے پوچھا کیا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے؟ انہوں نے فرمایا ہاں ! اس نے کہا کیا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ بیعت رضوان کے موقع پر بھی موجود نہ تھے؟ انہوں نے فرمایا ہاں ! مصری اس بات پر بڑا خوش ہوا اور اس نے نعرہ تکبیربلند کیا۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا اب آؤ میں تمہیں ان تمام چیزوں کی حقیقت سے آگاہ کروں جن کے متعلق تم نے مجھ سے پوچھاہے، جہاں تک غزوہ احد کے موقع پر بھاگنے کی بات ہے تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ نے ان سے در گذر کی اور انہیں معاف فرما دیا ہے غزوہ بدر میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی (حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا) جو کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نکاح میں تھیں اس وقت بیمار تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا کہ (تم یہیں رہ کر اس کی تیمارداری کرو) تمہیں غزوہ بدر کے شرکاء کے برابر اجر بھی ملے گا اور مال غنیمت کا حصہ بھی ، رہی بیعت رضوان سے غیر حاضری تو اگربطن مکہ میں عثمان سے زیادہ کوئی معزز ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی کو بھیجتے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت عثمان کو مکہ مکرمہ میں بھیجا تھا اور بیعت رضوان ان کے جانے کے بعد ہوئی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مار کر فرمایا تھا یہ عثمان کا ہاتھ ہے اس کے بعد حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا ان باتوں کو اپنے ساتھ لے کرچلاجا۔

یہ حدیث شیئر کریں