حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مرویات
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو عُمَيْسٍ عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ أَبِي فَزَارَةَ عَنْ أَبِي زَيْدٍ مَوْلَى عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ الْمَخْزُومِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ وَهُوَ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ إِذْ قَالَ لِيَقُمْ مَعِي رَجُلٌ مِنْكُمْ وَلَا يَقُومَنَّ مَعِي رَجُلٌ فِي قَلْبِهِ مِنْ الْغِشِّ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ قَالَ فَقُمْتُ مَعَهُ وَأَخَذْتُ إِدَاوَةً وَلَا أَحْسَبُهَا إِلَّا مَاءً فَخَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِأَعْلَى مَكَّةَ رَأَيْتُ أَسْوِدَةً مُجْتَمِعَةً قَالَ فَخَطَّ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطًّا ثُمَّ قَالَ قُمْ هَاهُنَا حَتَّى آتِيَكَ قَالَ فَقُمْتُ وَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ فَرَأَيْتُهُمْ يَتَثَوَّرُونَ إِلَيْهِ قَالَ فَسَمَرَ مَعَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلًا طَوِيلًا حَتَّى جَاءَنِي مَعَ الْفَجْرِ فَقَالَ لِي مَا زِلْتَ قَائِمًا يَا ابْنَ مَسْعُودٍ قَالَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوَلَمْ تَقُلْ لِي قُمْ حَتَّى آتِيَكَ قَالَ ثُمَّ قَالَ لِي هَلْ مَعَكَ مِنْ وَضُوءٍ قَالَ فَقُلْتُ نَعَمْ فَفَتَحْتُ الْإِدَاوَةَ فَإِذَا هُوَ نَبِيذٌ قَالَ فَقُلْتُ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ لَقَدْ أَخَذْتُ الْإِدَاوَةَ وَلَا أَحْسَبُهَا إِلَّا مَاءً فَإِذَا هُوَ نَبِيذٌ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَمْرَةٌ طَيِّبَةٌ وَمَاءٌ طَهُورٌ قَالَ ثُمَّ تَوَضَّأَ مِنْهَا فَلَمَّا قَامَ يُصَلِّي أَدْرَكَهُ شَخْصَانِ مِنْهُمْ قَالَا لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نُحِبُّ أَنْ تَؤُمَّنَا فِي صَلَاتِنَا قَالَ فَصَفَّهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلْفَهُ ثُمَّ صَلَّى بِنَا فَلَمَّا انْصَرَفَ قُلْتُ لَهُ مَنْ هَؤُلَاءِ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ هَؤُلَاءِ جِنُّ نَصِيبِينَ جَاءُوا يَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ فِي أُمُورٍ كَانَتْ بَيْنَهُمْ وَقَدْ سَأَلُونِي الزَّادَ فَزَوَّدْتُهُمْ قَالَ فَقُلْتُ لَهُ وَهَلْ عِنْدَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ تُزَوِّدُهُمْ إِيَّاهُ قَالَ فَقَالَ قَدْ زَوَّدْتُهُمْ الرَّجْعَةَ وَمَا وَجَدُوا مِنْ رَوْثٍ وَجَدُوهُ شَعِيرًا وَمَا وَجَدُوهُ مِنْ عَظْمٍ وَجَدُوهُ كَاسِيًا قَالَ وَعِنْدَ ذَلِكَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَنْ يُسْتَطَابَ بِالرَّوْثِ وَالْعَظْمِ
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مکی دور میں ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چند صحابہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اسی اثناء میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے ایک آدمی میرے ساتھ چلے، لیکن وہ آدمی جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر بھی تکبر نہ ہو، یہ سن کر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلنے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے ساتھ ایک برتن لے لیا جس میں میرے خیال کے مطابق پانی تھا، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوا، چلتے چلتے ہم لوگ جب مکہ مکرمہ کے بالائی حصے پر پہنچتے تو میں نے بہت سے سیاہ فام لوگوں کا ایک جم غفیر دیکھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط کھینچ کر مجھ سے فرمایا کہ تم میرے آنے تک یہیں کھڑے رہنا۔ چنانچہ میں اپنی جگہ کھڑا رہا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف بڑے جوش وخروش کے ساتھ بڑھ رہے تھے، رات بھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ طویل گفتگو فرمائی، اور فجر ہوتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لے آئے اور مجھ سے فرمانے لگے اے ابن مسعود! کیا تم اس وقت سے کھڑے ہوئے ہو؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ ہی نے تو فرمایا تھا کہ میرے آنے تک یہیں کھڑے رہنا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارے پاس وضو کا پانی ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! اب جو میں نے برتن کھولا تو اس میں نبیذ تھی، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) بخدا! میں نے جب یہ برتن لیا تھا تو میں یہی سمجھ رہا تھا کہ اس میں پانی ہوگا لیکن اس میں تو نبیذ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمدہ کھجور اور طہارت بخش پانی ہی تو ہے اور اسی سے وضو فرما لیا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے تو دو آدمی آگئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) ہماری خواہش ہے کہ آپ ہماری بھی امامت فرمائیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی اپنے پیچھے صف میں کھڑا کر لیا اور ہمیں نماز پڑھائی، جب نماز سے فراغت ہوئی تو میں نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ کون لوگ تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ نصیبین کے جن تھے، میرے پاس اپنے کچھ جھگڑوں کا فیصلہ کرانے کے لئے آئے تھے، انہوں نے مجھ سے زاد سفر بھی مانگا تھا جو میں نے انہیں دے دیا، میں نے پوچھا یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا آپ کے پاس کوئی ایسی چیز تھی جو آپ انہیں زاد راہ کے طور پر دے سکتے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے انہیں لید دی ہے، انہیں جو بھی مینگنی ملتی ہے وہ جو بن جاتی ہے اور جو بھی ہڈی ملتی ہے اس پر گوشت آجاتا ہے، اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مینگنی اور ہڈی سے استنجاء کرنے کی ممانعت فرمائی ہے۔
