مسند احمد ۔ جلد دوم ۔ حدیث 1389

عبداللہ بن عباس کی مرویات

حَدَّثَنَا يَزِيدُ قَالَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ و عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ قَالَ كَتَبَ نَجْدَةُ الْحَرُورِيُّ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ قَتْلِ الْوِلْدَانِ وَهَلْ كُنَّ النِّسَاءُ يَحْضُرْنَ الْحَرْبَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهَلْ كَانَ يَضْرِبُ لَهُنَّ بِسَهْمٍ قَالَ يَزِيدُ بْنُ هُرْمُزَ وَأَنَا كَتَبْتُ كِتَابَ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَى نَجْدَةَ كَتَبَ إِلَيْهِ كَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ قَتْلِ الْوِلْدَانِ وَتَقُولُ إِنَّ الْعَالِمَ صَاحِبَ مُوسَى قَدْ قَتَلَ الْغُلَامَ فَلَوْ كُنْتَ تَعْلَمُ مِنْ الْوِلْدَانِ مِثْلَ مَا كَانَ يَعْلَمُ ذَلِكَ الْعَالِمُ قَتَلْتَ وَلَكِنَّكَ لَا تَعْلَمُ فَاجْتَنِبْهُمْ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نَهَى عَنْ قَتْلِهِمْ وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ النِّسَاءِ هَلْ كُنَّ يَحْضُرْنَ الْحَرْبَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهَلْ كَانَ يَضْرِبُ لَهُنَّ بِسَهْمٍ وَقَدْ كُنَّ يَحْضُرْنَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّا أَنْ يَضْرِبَ لَهُنَّ بِسَهْمٍ فَلَمْ يَفْعَلْ وَقَدْ كَانَ يَرْضَخُ لَهُنَّ

یزید بن ہرمز کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نجدہ بن عامر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے خط لکھ کر بچوں کو قتل کرنے کے حوالے سے سوال پوچھا، نیز یہ کہ کیا خواتین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جہاد میں شریک ہوتی تھیں ؟ اور کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کا حصہ مقرر فرماتے تھے؟ اس خط کا جواب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے لکھوایا تھا ، انہوں نے جواب میں لکھا کہ آپ نے مجھ سے پوچھا ہے کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے کسی بچے کو قتل کیا ہے؟ تو یاد رکھئے! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی کے بچے کو قتل نہیں کیا اور آپ بھی کسی کو قتل نہ کریں، ہاں اگر آپ کو بھی اسی طرح کسی بچے کے بارے پتہ چل جائے جیسے حضرت خضر علیہ السلام کو اس بچے کے بارے پتہ چل گیا تھا جسے انہوں نے مار دیا تھا تو بات جدا ہے (اور یہ تمہارے لئے ممکن نہیں ہے) نیز آپ نے پوچھا ہے کہ اگر عورت اور غلام جنگ میں شریک ہوئے ہوں تو کیا ان کا حصہ بھی مال غنیمت میں معین ہے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا کوئی حصہ معین نہیں کیا ہے البتہ مال غنیمت میں سے کچھ نہ کچھ ضرور دیا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں