مسند احمد ۔ جلد دوم ۔ حدیث 1163

عبداللہ بن عباس کی مرویات

حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ حَدَّثَنَا أَبُو بَلْجٍ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَيْمُونٍ قَالَ إِنِّي لَجَالِسٌ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ إِذْ أَتَاهُ تِسْعَةُ رَهْطٍ فَقَالُوا يَا أَبَا عَبَّاسٍ إِمَّا أَنْ تَقُومَ مَعَنَا وَإِمَّا أَنْ يُخْلُونَا هَؤُلَاءِ قَالَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ بَلْ أَقُومُ مَعَكُمْ قَالَ وَهُوَ يَوْمَئِذٍ صَحِيحٌ قَبْلَ أَنْ يَعْمَى قَالَ فَابْتَدَءُوا فَتَحَدَّثُوا فَلَا نَدْرِي مَا قَالُوا قَالَ فَجَاءَ يَنْفُضُ ثَوْبَهُ وَيَقُولُ أُفْ وَتُفْ وَقَعُوا فِي رَجُلٍ لَهُ عَشْرٌ وَقَعُوا فِي رَجُلٍ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأَبْعَثَنَّ رَجُلًا لَا يُخْزِيهِ اللَّهُ أَبَدًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ قَالَ فَاسْتَشْرَفَ لَهَا مَنْ اسْتَشْرَفَ قَالَ أَيْنَ عَلِيٌّ قَالُوا هُوَ فِي الرَّحْلِ يَطْحَنُ قَالَ وَمَا كَانَ أَحَدُكُمْ لِيَطْحَنَ قَالَ فَجَاءَ وَهُوَ أَرْمَدُ لَا يَكَادُ يُبْصِرُ قَالَ فَنَفَثَ فِي عَيْنَيْهِ ثُمَّ هَزَّ الرَّايَةَ ثَلَاثًا فَأَعْطَاهَا إِيَّاهُ فَجَاءَ بِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ قَالَ ثُمَّ بَعَثَ فُلَانًا بِسُورَةِ التَّوْبَةِ فَبَعَثَ عَلِيًّا خَلْفَهُ فَأَخَذَهَا مِنْهُ قَالَ لَا يَذْهَبُ بِهَا إِلَّا رَجُلٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ قَالَ وَقَالَ لِبَنِي عَمِّهِ أَيُّكُمْ يُوَالِينِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ قَالَ وَعَلِيٌّ مَعَهُ جَالِسٌ فَأَبَوْا فَقَالَ عَلِيٌّ أَنَا أُوَالِيكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ قَالَ أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ قَالَ فَتَرَكَهُ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ فَقَالَ أَيُّكُمْ يُوَالِينِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ فَأَبَوْا قَالَ فَقَالَ عَلِيٌّ أَنَا أُوَالِيكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ فَقَالَ أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ قَالَ وَكَانَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ النَّاسِ بَعْدَ خَدِيجَةَ قَالَ وَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَوْبَهُ فَوَضَعَهُ عَلَى عَلِيٍّ وَفَاطِمَةَ وَحَسَنٍ وَحُسَيْنٍ فَقَالَ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا قَالَ وَشَرَى عَلِيٌّ نَفْسَهُ لَبِسَ ثَوْبَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ نَامَ مَكَانَهُ قَالَ وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ يَرْمُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ وَعَلِيٌّ نَائِمٌ قَالَ وَأَبُو بَكْرٍ يَحْسَبُ أَنَّهُ نَبِيُّ اللَّهِ قَالَ فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ قَالَ فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ انْطَلَقَ نَحْوَ بِئْرِ مَيْمُونٍ فَأَدْرِكْهُ قَالَ فَانْطَلَقَ أَبُو بَكْرٍ فَدَخَلَ مَعَهُ الْغَارَ قَالَ وَجَعَلَ عَلِيٌّ يُرْمَى بِالْحِجَارَةِ كَمَا كَانَ يُرْمَى نَبِيُّ اللَّهِ وَهُوَ يَتَضَوَّرُ قَدْ لَفَّ رَأْسَهُ فِي الثَّوْبِ لَا يُخْرِجُهُ حَتَّى أَصْبَحَ ثُمَّ كَشَفَ عَنْ رَأْسِهِ فَقَالُوا إِنَّكَ لَلَئِيمٌ كَانَ صَاحِبُكَ نَرْمِيهِ فَلَا يَتَضَوَّرُ وَأَنْتَ تَتَضَوَّرُ وَقَدْ اسْتَنْكَرْنَا ذَلِكَ قَالَ وَخَرَجَ بِالنَّاسِ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ قَالَ فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ أَخْرُجُ مَعَكَ قَالَ فَقَالَ لَهُ نَبِيُّ اللَّهِ لَا فَبَكَى عَلِيٌّ فَقَالَ لَهُ أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّكَ لَسْتَ بِنَبِيٍّ إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي أَنْ أَذْهَبَ إِلَّا وَأَنْتَ خَلِيفَتِي قَالَ وَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ أَنْتَ وَلِيِّي فِي كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي وَقَالَ سُدُّوا أَبْوَابَ الْمَسْجِدِ غَيْرَ بَابِ عَلِيٍّ فَقَالَ فَيَدْخُلُ الْمَسْجِدَ جُنُبًا وَهُوَ طَرِيقُهُ لَيْسَ لَهُ طَرِيقٌ غَيْرُهُ قَالَ وَقَالَ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَإِنَّ مَوْلَاهُ عَلِيٌّ قَالَ وَأَخْبَرَنَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْقُرْآنِ أَنَّهُ قَدْ رَضِيَ عَنْهُمْ عَنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ هَلْ حَدَّثَنَا أَنَّهُ سَخِطَ عَلَيْهِمْ بَعْدُ قَالَ وَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ حِينَ قَالَ ائْذَنْ لِي فَلْأَضْرِبْ عُنُقَهُ قَالَ أَوَكُنْتَ فَاعِلًا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ قَدْ اطَّلَعَ إِلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ حَدَّثَنَا أَبُو مَالِكٍ كَثِيرُ بْنُ يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي بَلْجٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ نَحْوَهُ

عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ نو آدمیوں پر مشتمل لوگوں کا ایک وفد آیا تھا اور کہنے لگا کہ اے ابو العباس! یا تو آپ ہمارے ساتھ چلیں یا یہ لوگ ہمارے لئے خلوت کر دیں، ہم آپ سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتے ہیں، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں ہی آپ لوگوں کے ساتھ چلتا ہوں ، یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی بینائی ختم ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ ان لوگوں نے گفتگو کا آغاز کیا اور بات چیت کرتے رہے لیکن ہمیں کچھ نہیں پتہ کہ انہوں نے کیا کہا؟ تھوڑی دیر بعد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے آئے اور کہنے لگے اف، تف، یہ لوگ ایک ایسے آدمی میں عیب نکال رہے ہیں ، جسے دس خوبیاں اور خصوصیات حاصل تھیں، یہ لوگ ایک ایسے آدمی کی عزت کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں جس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اب میں ایک ایسے آدمی کو بھیجوں گا جسے اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا اور وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا ، جھانک کر دیکھنے والے اس اعزاز کو حاصل کرنے کے لئے جھانکنے لگے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علی کہاں ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ وہ چکی میں آٹا پیس رہے ہوں گے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی آٹا کیوں نہیں پیستا؟ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے تو انہیں آشوب چشم کا عارضہ لاحق تھا، گویا انہیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن لگایا اور تین مرتبہ جھنڈا ہلا کر ان کے حوالے کر دیا اور وہ ام المومنین حضرت صفیہ بنت حیی کو لانے کا سبب بن گئے۔ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو سورت توبہ کا اعلان کرنے کے لئے مکہ مکرمہ روانہ فرمایا: بعد میں ان کے پیچھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی روانہ کر دیا، انہوں نے اس خدمت کی ذمہ داری سنبھال لی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ پیغام ایسا تھا جسے کوئی ایسا شخص ہی پہنچا سکتا تھا جس کا مجھ سے قریبی رشتہ داری کا تعلق ہو اور میراس سے تعلق ہو۔ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا زاد بھائیوں سے فرمایا دنیا و آخرت میں تم میں سے کون میرے ساتھ موالات کرتا ہے، اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تشریف فرما تھے، باقی سب نے انکار کر دیا لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں آپ کے ساتھ دنیا و آخرت کی موالات قائم کرتا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دنیا اور آخرت میں میرے دوست ہو، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ ان میں سے ایک آدمی کی طرف متوجہ ہوئے اور یہی صورت دوبارہ پیش آئی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بعد تمام لوگوں میں سب سے پہلے قبول اسلام کا اعزاز بچوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑا لے کر حضرت علی، حضرت فاطمہ، حسن، اور حسین رضی اللہ عنہم پر ڈالا اور فرمایا اے اہل بیت! اللہ تم سے گندگی کو دور کرنا اور تمہیں خوب پاک کرنا چاہتا ہے۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا آپ بیچ دیا تھا ، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس شب ہجرت زیب تن کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ سو گئے، مشرکین اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تیروں کی بوچھاڑ کر رہے تھے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ وہاں آئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سوئے ہوئے تھے لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لیٹے ہوئے ہیں اس لئے وہ کہنے لگے اے اللہ کے نبی! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے منہ کھول کر فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیر میمون کی طرف گئے ہیں، آپ انہیں وہاں جا کر ملیں، چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ چلے گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار میں داخل ہوئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس تیروں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئی تھی اور وہ تکلیف میں تھے، انہوں نے اپنا سر کپڑے میں لپیٹ رکھا تھا ، صبح تک انہوں نے سر باہر نہیں نکالا، جب انہوں نے اپنے سر سے کپڑا ہٹایا تو قریش کے لوگ کہنے لگے تم تو بڑے کمینے ہو، ہم تمہارے ساتھی پر تیربرسا رہے تھے اور ان کی جگہ تمہیں نقصان پہنچ رہا تھا اور ہمیں یہ بات اوپری محسوس ہوئی۔ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو لے کر غزوہ تبوک کے لئے نکلے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا میں بھی آپ کے ساتھ جاؤں گا؟ فرمایا نہیں، اس پر وہ رو پڑے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسی علیہ السلام سے تھی، البتہ فرق یہ ہے کہ تم نبی نہیں ہو اور میرے لئے جانا مناسب نہیں ہے الاّ یہ کہ تم میرے نائب بن جاؤ، نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میرے بعد ہر مومن کے بارے میں میرے دوست ہو، نیز مسجد نبوی کے تمام دروازے بند کر دیئے گئے سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دروازے کے، چنانچہ وہ مسجد میں حالت جنابت میں بھی داخل ہوجاتے تھے کیونکہ ان کا اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہی نہ تھا۔ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا میں مولیٰ ہوں، علی بھی اس کا مولیٰ ہے، نیز اللہ نے ہمیں قرآن کریم میں بتایا ہے کہ وہ ان سے راضی ہوچکا ہے یعنی اصحاب الشجرہ سے (بیعت رضوان کرنے والوں سے) اور ان کے دلوں میں جو کچھ ہے، اللہ سب جانتا ہے، کیا بعد میں کبھی اللہ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ وہ ان سے ناراض ہوگیا ہے، نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے متعلق عرض کیا کہ مجھے اجازت دیجئے، میں اس کی گردن اڑا دوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کیا تم واقعی ایسا کر سکتے ہو؟ کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ اللہ نے اہل بدر کی طرف جھانک کر دیکھا اور فرمایا تم جو مرضی عمل کرتے رہو (میں نے تمہیں معاف کر دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اہل بدر میں سے تھے)
گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں