عبداللہ بن عباس کی مرویات
حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ حَدَّثَنَا شَهْرٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ قَالَ بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِفِنَاءِ بَيْتِهِ بِمَكَّةَ جَالِسٌ إِذْ مَرَّ بِهِ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ فَكَشَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا تَجْلِسُ قَالَ بَلَى قَالَ فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَقْبِلَهُ فَبَيْنَمَا هُوَ يُحَدِّثُهُ إِذْ شَخَصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَصَرِهِ إِلَى السَّمَاءِ فَنَظَرَ سَاعَةً إِلَى السَّمَاءِ فَأَخَذَ يَضَعُ بَصَرَهُ حَتَّى وَضَعَهُ عَلَى يَمِينِهِ فِي الْأَرْضِ فَتَحَرَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ جَلِيسِهِ عُثْمَانَ إِلَى حَيْثُ وَضَعَ بَصَرَهُ وَأَخَذَ يُنْغِضُ رَأْسَهُ كَأَنَّهُ يَسْتَفْقِهُ مَا يُقَالُ لَهُ وَابْنُ مَظْعُونٍ يَنْظُرُ فَلَمَّا قَضَى حَاجَتَهُ وَاسْتَفْقَهَ مَا يُقَالُ لَهُ شَخَصَ بَصَرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاءِ كَمَا شَخَصَ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَأَتْبَعَهُ بَصَرَهُ حَتَّى تَوَارَى فِي السَّمَاءِ فَأَقْبَلَ إِلَى عُثْمَانَ بِجِلْسَتِهِ الْأُولَى قَالَ يَا مُحَمَّدُ فِيمَ كُنْتُ أُجَالِسُكَ وَآتِيكَ مَا رَأَيْتُكَ تَفْعَلُ كَفِعْلِكَ الْغَدَاةَ قَالَ وَمَا رَأَيْتَنِي فَعَلْتُ قَالَ رَأَيْتُكَ تَشْخَصُ بِبَصَرِكَ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ وَضَعْتَهُ حَيْثُ وَضَعْتَهُ عَلَى يَمِينِكَ فَتَحَرَّفْتَ إِلَيْهِ وَتَرَكْتَنِي فَأَخَذْتَ تُنْغِضُ رَأْسَكَ كَأَنَّكَ تَسْتَفْقِهُ شَيْئًا يُقَالُ لَكَ قَالَ وَفَطِنْتَ لِذَاكَ قَالَ عُثْمَانُ نَعَمْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ آنِفًا وَأَنْتَ جَالِسٌ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَمَا قَالَ لَكَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنْ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ قَالَ عُثْمَانُ فَذَلِكَ حِينَ اسْتَقَرَّ الْإِيمَانُ فِي قَلْبِي وَأَحْبَبْتُ مُحَمَّدًا
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں اپنے گھر کے صحن میں تشریف فرما تھے کہ وہاں سے عثمان بن مظعون کا گذر ہوا ، وہ تیزی سے گذرنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کیا آپ بیٹھیں گے نہیں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ، چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر بیٹھ گئے، ابھی یہ دونوں آپس میں باتیں کر ہی رہے تھے کہ اچانک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہیں اوپر کو اٹھ گئیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لمحے کے لئے آسمان کی طرف دیکھا، پھر آہستہ آہستہ اپنی انگاہیں نیچے کرنے لگے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نظریں زمین پر اپنی دائیں جانب گاڑ دیں اور اپنے مہمان عثمان سے منہ پھیر کر اس کی طرف متوجہ ہو گئے اور اپنا سر جھکا لیا، ایسا محسوس ہوا کہ وہ کسی کی بات سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں ، عثمان یہ سب کچھ دیکھتے رہے۔ تھوڑی دیر بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کام سے فارغ ہوئے اور جو کچھ ان سے کہا جا رہا تھا، انہوں نے سمجھ لیا تو پھر ان کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھ گئیں، جیسے پہلی مرتبہ ہوا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہیں کسی چیز کا پیچھا کرتی رہیں یہاں تک کہ وہ چیز آسمانوں میں چھپ گئی، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلے کی طرح عثمان کی طرف متوجہ ہوئے تو وہ کہنے لگے کہ میں آپ کے پاس آکر کیوں بیٹھوں ؟ آج آپ نے جو کچھ کیا ہے اس سے پہلے میں نے آپ کو ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے مجھے کیا کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ عثمان کہنے لگے کہ میں نے دیکھا کہ آپ کی نظریں آسمان کی طرف اٹھ گئیں ، پھر آپ نے دائیں ہاتھ اپنی نگاہیں جما دیں ، آپ مجھے چھوڑ کر اس طرح متوجہ ہوگئے، اور آپ نے اپنے سر کو جھکالیا، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آپ سے کچھ کہا جارہاہے، اسے آپ سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا واقعی تم نے ایسی چیز محسوس کی ہے؟ عثمان کہنے لگے جی ہاں ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی ابھی میرے پاس اللہ کا قاصد آیا تھا جبکہ تم میرے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے، عثمان نے کہا اللہ کا قاصد؟ فرمایا ہاں ! عثمان نے پوچھا کہ پھر اس نے آپ سے کیا کہا؟ فرمایا بے شک اللہ عدل واحسان کا اور قریبی رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، ناپسندیدہ اور سرکشی کے کاموں سے روکتاہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو، عثمان کہتے ہیں کہ اسی وقت سے میرے دل میں اسلام نے جگہ بنانی شروع کردی اور مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہوگئی
