عبداللہ بن عباس کی مرویات
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ وَأَبُو سَعِيدٍ وَعَفَّانُ قَالُوا حَدَّثَنَا ثَابِتٌ حَدَّثَنَا هِلَالٌ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهِ عُمَرُ وَهُوَ عَلَى حَصِيرٍ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ لَوْ اتَّخَذْتَ فِرَاشًا أَوْثَرَ مِنْ هَذَا فَقَالَ مَا لِي وَلِلدُّنْيَا مَا مَثَلِي وَمَثَلُ الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ سَارَ فِي يَوْمٍ صَائِفٍ فَاسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے، دیکھا کہ نبی صلی اللہ جس چٹائی پر تشریف فرما ہیں ، پہلوئے مبارک پر اس کے نشانات پڑ چکے ہیں، عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کچھ نرم بستر بنوا لیتے تو کتنا اچھا ہوتا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا دنیا سے کیا تعلق؟ میری اور دنیا کی مثال تو اس سوار کی سی جو گرمی کے موسم میں سارا دن چلتا رہے اور کچھ دیر کے لئے ایک درخت کے نیچے سایہ حاصل کرے، پھر اسے چھوڑ کر چل دے۔
