مسند احمد ۔ جلد دوم ۔ حدیث 859

عبداللہ بن عباس کی مرویات

حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا يَطُوفُونَ بِالْبَيْتِ وَابْنُ عَبَّاسٍ جَالِسٌ مَعَهُ مِحْجَنٌ فَقَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ وَلَوْ أَنَّ قَطْرَةً مِنْ الزَّقُّومِ قُطِرَتْ لَأَمَرَّتْ عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ عَيْشَهُمْ فَكَيْفَ مَنْ لَيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ إِلَّا الزَّقُّومُ

مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ لوگ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حرم میں تشریف فرما تھے، ان کے پاس ایک چھڑی بھی تھی، وہ کہنے لگے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کر کے " اے اہل ایمان! اللہ سے اس طرح ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم نہ مرنا مگر مسلمان ہو کر " فرما اگر زقوم کا ایک قطرہ بھی زمین پر ٹپکایا جائے تو زمین والوں کی زندگی کو تلخ کر کے رکھ دے، اب سوچ لو کہ جس کا کھانا ہی زقوم ہوگا، اس کا کیا بنے گا۔
فائدہ : زقوم جہنم کے ایک درخت کا نام ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں