عبداللہ بن عباس کی مرویات
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ أَنَّ نَجْدَةَ كَتَبَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى لِمَنْ هُوَ وَعَنْ الْيَتِيمِ مَتَى يَنْقَضِي يُتْمُهُ وَعَنْ الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ يَشْهَدَانِ الْغَنِيمَةَ وَعَنْ قَتْلِ أَطْفَالِ الْمُشْرِكِينَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَوْلَا أَنْ أَرُدَّهُ عَنْ شَيْءٍ يَقَعُ فِيهِ مَا أَجَبْتُهُ وَكَتَبَ إِلَيْهِ إِنَّكَ كَتَبْتَ إِلَيَّ تَسْأَلُ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى لِمَنْ هُوَ وَإِنَّا كُنَّا نَرَاهَا لِقَرَابَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَبَى ذَلِكَ عَلَيْنَا قَوْمُنَا وَعَنْ الْيَتِيمِ مَتَى يَنْقَضِي يُتْمُهُ قَالَ إِذَا احْتَلَمَ أَوْ أُونِسَ مِنْهُ خَيْرٌ وَعَنْ الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ يَشْهَدَانِ الْغَنِيمَةَ فَلَا شَيْءَ لَهُمَا وَلَكِنَّهُمَا يُحْذَيَانِ وَيُعْطَيَانِ وَعَنْ قَتْلِ أَطْفَالِ الْمُشْرِكِينَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَقْتُلْهُمْ وَأَنْتَ فَلَا تَقْتُلْهُمْ إِلَّا أَنْ تَعْلَمَ مِنْهُمْ مَا عَلِمَ الْخَضِرُ مِنْ الْغُلَامِ حِينَ قَتَلَهُ
یزید بن ہرمز کہتے ہیں ایک مرتبہ نجدہ بن عامر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے خط لکھ کر پوچھا کہ قریبی رشتہ دار کون ہیں جن کا حصہ ہے؟ یتیم سے یتیمی کا لفظ کب دور ہوتا ہے؟ اگر عورت اور غلام تقسیم غنیمت کے موقع پر موجود ہوں تو کیا حکم ہے؟ اور مشرکین کے بچوں کو قتل کرنا کیسا ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا بخدا! اگر میں نے اسے اس شر سے نہ بچانا ہوتا جس میں وہ مبتلا ہوسکتا ہے تو میں کبھی بھی جواب دے کر اسے خوش نہ کرتا۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ آپ نے مجھ سے ان ذوی القربی کے حصہ کے بارے پوچھا ہے جن کا اللہ نے ذکر کیا ہے کہ وہ کون ہیں؟ ہماری رائے تو یہی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار ہی اس کا مصداق ہیں لیکن ہماری قوم نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، آپ نے یتیم کے متعلق پوچھا ہے کہ اس سے یتیم کا لفظ کب ہٹایا جائے گا؟ یاد رکھئے! جب وہ بالغ ہوجائے اور اس کی سمجھ بوجھ ظاہر ہوجائے تو اسے اس کا مال دے دیا جائے کہ اب اس کی یتیمی ختم ہوگئی۔ نیز آپ نے پوچھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کے کسی بچے کو قتل کیا ہے؟ تو یاد رکھئے! نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی کے بچے کو قتل نہیں کیا اور آپ بھی کسی کو قتل نہ کریں ، ہاں ! اگر آپ کو بھی اسی طرح کسی بچے کے بارے پتہ چل جائے جیسے حضرت خضر علیہ السلام کو اس بچے کے بارے پتہ چل گیا تھا جسے انہوں نے مار دیا تھا تو بات جدا ہے (اوریہ تمہارے لئے ممکن نہیں ہے) نیز آپ نے پوچھا ہے کہ اگر عورت اور غلام جنگ میں شریک ہوئے ہوں تو کیا ان کا حصہ بھی مال غنیمت میں معین ہے؟ تو ان کا کوئی حصہ معین نہیں ہے البتہ انہیں مال غنیمت میں سے کچھ نہ کچھ دے دینا چاہئے۔
