عبداللہ بن عباس کی مرویات
حَدَّثَنَا يُونُسُ وَعَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ قَالَ عَفَّانُ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مِهْرَانَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلًا أَتَى عُمَرَ فَقَالَ امْرَأَةٌ جَاءَتْ تُبَايِعُهُ فَأَدْخَلْتُهَا الدَّوْلَجَ فَأَصَبْتُ مِنْهَا مَا دُونَ الْجِمَاعِ فَقَالَ وَيْحَكَ لَعَلَّهَا مُغِيبٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ أَجَلْ قَالَ فَأْتِ أَبَا بَكْرٍ فَاسْأَلْهُ قَالَ فَأَتَاهُ فَسَأَلَهُ فَقَالَ لَعَلَّهَا مُغِيبٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ فَقَالَ مِثْلَ قَوْلِ عُمَرَ ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ قَالَ فَلَعَلَّهَا مُغِيبٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَنَزَلَ الْقُرْآنُ وَأَقِمْ الصَّلَاةَ طَرَفَيْ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنْ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ إِلَى آخِرِ الْآيَةِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِي خَاصَّةً أَمْ لِلنَّاسِ عَامَّةً فَضَرَبَ عُمَرُ صَدْرَهُ بِيَدِهِ فَقَالَ لَا وَلَا نَعْمَةَ عَيْنٍ بَلْ لِلنَّاسِ عَامَّةً فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَ عُمَرُ
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ (ایک عورت کا شوہر اس کے پاس موجود نہ تھا، وہ ایک شخص کے پاس کچھ خریداری کرنے کے لئے آئی، اس نے اس عورت سے کہا کہ گودام میں آجاؤ، میں تمہیں وہ چیز دے دیتا ہوں ، وہ عورت جب گودام میں داخل ہوئی تو اس نے اسے بوسہ دے دیا اور اس سے چھیڑ خانی کی، اس عورت نے کہا کہ افسوس! میرا تو شوہر بھی غائب ہے، اس پر اس نے اسے چھوڑ دیا اور اپنی حرکت پر نادم ہوا پھر وہ) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا افسوس! شاید اس کا شوہر اللہ اللہ کے راستہ میں جہاد کی وجہ سے موجود نہ ہوگا؟ اس نے اثبات میں جواب دیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس مسئلے کا حل تم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر ان سے معلوم کرو، چنانچہ اس نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کریہ مسئلہ پوچھا، انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ شاید اس کا شوہر اللہ کے راستہ میں جہاد کی وجہ سے موجود نہ ہوگا، پھر انہوں نے اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا۔ وہ آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا واقعہ سنایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی فرمایا کہ شاید اس عورت کا خاوند موجود نہیں ہوگا؟ اور اس کے متلعق قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوگئی کہ دن کے دونوں حصوں اور رات کے کچھ حصے میں نماز قائم کیجئے، بیشک نیکیاں گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں، اس آدمی نے پوچھا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم کیا قرآن کریم کا یہ حکم خاص طور پر میرے لئے ہے یا سب لوگوں کے لئے یہ عمومی حکم ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا تو اتنا خوش نہ ہو، یہ سب لوگوں کے لئے عمومی حکم ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمر نے سچ کہا۔
