عبداللہ بن عباس کی مرویات
حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَخْبَرَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَهُوَ سَيِّدُ الْأَنْصَارِ أَهَكَذَا نَزَلَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَلَا تَسْمَعُونَ إِلَى مَا يَقُولُ سَيِّدُكُمْ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ لَا تَلُمْهُ فَإِنَّهُ رَجُلٌ غَيُورٌ وَاللَّهِ مَا تَزَوَّجَ امْرَأَةً قَطُّ إِلَّا بِكْرًا وَمَا طَلَّقَ امْرَأَةً لَهُ قَطُّ فَاجْتَرَأَ رَجُلٌ مِنَّا عَلَى أَنْ يَتَزَوَّجَهَا مِنْ شِدَّةِ غَيْرَتِهِ فَقَالَ سَعْدٌ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّهَا حَقٌّ وَأَنَّهَا مِنْ اللَّهِ تَعَالَى وَلَكِنِّي قَدْ تَعَجَّبْتُ أَنِّي لَوْ وَجَدْتُ لَكَاعًا تَفَخَّذَهَا رَجُلٌ لَمْ يَكُنْ لِي أَنْ أَهِيجَهُ وَلَا أُحَرِّكَهُ حَتَّى آتِيَ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَوَاللَّهِ لَا آتِي بِهِمْ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ قَالَ فَمَا لَبِثُوا إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى جَاءَ هِلَالُ بْنُ أُمَيَّةَ وَهُوَ أَحَدُ الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ تِيبَ عَلَيْهِمْ فَجَاءَ مِنْ أَرْضِهِ عِشَاءً فَوَجَدَ عِنْدَ أَهْلِهِ رَجُلًا فَرَأَى بِعَيْنَيْهِ وَسَمِعَ بِأُذُنَيْهِ فَلَمْ يَهِجْهُ حَتَّى أَصْبَحَ فَغَدَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي جِئْتُ أَهْلِي عِشَاءً فَوَجَدْتُ عِنْدَهَا رَجُلًا فَرَأَيْتُ بِعَيْنَيَّ وَسَمِعْتُ بِأُذُنَيَّ فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا جَاءَ بِهِ وَاشْتَدَّ عَلَيْهِ وَاجْتَمَعَتْ الْأَنْصَارُ فَقَالُوا قَدْ ابْتُلِينَا بِمَا قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ الْآنَ يَضْرِبُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ وَيُبْطِلُ شَهَادَتَهُ فِي الْمُسْلِمِينَ فَقَالَ هِلَالٌ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِي مِنْهَا مَخْرَجًا فَقَالَ هِلَالٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ أَرَى مَا اشْتَدَّ عَلَيْكَ مِمَّا جِئْتُ بِهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنِّي لَصَادِقٌ وَ وَاللَّهِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ أَنْ يَأْمُرَ بِضَرْبِهِ إِذْ أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَحْيَ وَكَانَ إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ عَرَفُوا ذَلِكَ فِي تَرَبُّدِ جِلْدِهِ يَعْنِي فَأَمْسَكُوا عَنْهُ حَتَّى فَرَغَ مِنْ الْوَحْيِ فَنَزَلَتْ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ الْآيَةَ فَسُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبْشِرْ يَا هِلَالُ فَقَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَكَ فَرَجًا وَمَخْرَجًا فَقَالَ هِلَالٌ قَدْ كُنْتُ أَرْجُو ذَاكَ مِنْ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسِلُوا إِلَيْهَا فَأَرْسَلُوا إِلَيْهَا فَجَاءَتْ فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمَا وَذَكَّرَهُمَا وَأَخْبَرَهُمَا أَنَّ عَذَابَ الْآخِرَةِ أَشَدُّ مِنْ عَذَابِ الدُّنْيَا فَقَالَ هِلَالٌ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَقَدْ صَدَقْتُ عَلَيْهَا فَقَالَتْ كَذَبَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَاعِنُوا بَيْنَهُمَا فَقِيلَ لِهِلَالٍ اشْهَدْ فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الصَّادِقِينَ فَلَمَّا كَانَ فِي الْخَامِسَةِ قِيلَ يَا هِلَالُ اتَّقِ اللَّهَ فَإِنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ وَإِنَّ هَذِهِ الْمُوجِبَةُ الَّتِي تُوجِبُ عَلَيْكَ الْعَذَابَ فَقَالَ وَاللَّهِ لَا يُعَذِّبُنِي اللَّهُ عَلَيْهَا كَمَا لَمْ يَجْلِدْنِي عَلَيْهَا فَشَهِدَ فِي الْخَامِسَةِ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنْ الْكَاذِبِينَ ثُمَّ قِيلَ لَهَا اشْهَدِي أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الْكَاذِبِينَ فَلَمَّا كَانَتْ الْخَامِسَةُ قِيلَ لَهَا اتَّقِ اللَّهَ فَإِنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ وَإِنَّ هَذِهِ الْمُوجِبَةُ الَّتِي تُوجِبُ عَلَيْكِ الْعَذَابَ فَتَلَكَّأَتْ سَاعَةً ثُمَّ قَالَتْ وَاللَّهِ لَا أَفْضَحُ قَوْمِي فَشَهِدَتْ فِي الْخَامِسَةِ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ فَفَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا وَقَضَى أَنَّهُ لَا يُدْعَى وَلَدُهَا لِأَبٍ وَلَا تُرْمَى هِيَ بِهِ وَلَا يُرْمَى وَلَدُهَا وَمَنْ رَمَاهَا أَوْ رَمَى وَلَدَهَا فَعَلَيْهِ الْحَدُّ وَقَضَى أَنْ لَا بَيْتَ لَهَا عَلَيْهِ وَلَا قُوتَ مِنْ أَجْلِ أَنَّهُمَا يَتَفَرَّقَانِ مِنْ غَيْرِ طَلَاقٍ وَلَا مُتَوَفًّى عَنْهَا وَقَالَ إِنْ جَاءَتْ بِهِ أُصَيْهِبَ أُرَيْسِحَ حَمْشَ السَّاقَيْنِ فَهُوَ لِهِلَالٍ وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَوْرَقَ جَعْدًا جُمَالِيًّا خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ سَابِغَ الْأَلْيَتَيْنِ فَهُوَ لِلَّذِي رُمِيَتْ بِهِ فَجَاءَتْ بِهِ أَوْرَقَ جَعْدًا جُمَالِيًّا خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ سَابِغَ الْأَلْيَتَيْنِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْلَا الْأَيْمَانُ لَكَانَ لِي وَلَهَا شَانٌ قَالَ عِكْرِمَةُ فَكَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَمِيرًا عَلَى مِصْرٍ وَكَانَ يُدْعَى لِأُمِّهِ وَمَا يُدْعَى لِأَبِيهِ
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں اور اس پر چار گواہ پیش نہ کر سکیں تو انہیں اسی کوڑے مارو اور ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو، تو حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ جو انصار کے سردار تھے کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ حکم آپ پر اسی طرح نازل ہوا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے گروہ انصار! سنتے ہو کہ تمہارے سردار کیا کہہ رہے ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بات کا برا نہ منائیے کیونکہ یہ بہت باغیرت آدمی ہیں، واللہ انہوں نے ہمیشہ صرف کنواری عورت سے ہی شادی کی ہے اور جب کبھی انہوں نے اپنی کسی بیوی کو طلاق دی ہے تو کسی دوسرے آدمی کو ان کی اس مطلقہ بیوی سے بھی ان کی شدت غیرت کی وجہ سے شادی کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہنے لگے یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اس بات کا یقین ہے کہ یہ حکم برحق ہے اور اللہ ہی کی طرف سے آیا ہے، لیکن مجھے اس بات پر تعجب ہو رہا ہے کہ اگر میں کسی کمینی عورت کو اس حال میں دیکھوں کہ اسے کسی آدمی نے اپنی رانوں کے درمیان دبوچ رکھا ہو اور میں اس پر غصہ میں بھی نہ آؤں اور اسے چھیڑوں بھی نہیں ، پہلے جا کر چارگواہ لے کر آؤں ، بخدا! میں تو جب تک گواہ لے کر آؤں گا اس وقت تک وہ اپنا کام پورا کر چکا ہوگا ۔
ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ تھوڑی دیر بعد ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ آگئے، یہ ہلال ان تین میں سے ایک ہیں جو غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے اور بعد میں ان کی توبہ قبول ہوگئی تھی اور یہ عشاء کے وقت اپنی زمین سے واپس آئے، تو اپنی بیوی کے پاس ایک اجنبی آدمی کو دیکھا، انہوں نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے ان کی باتیں سنیں لیکن تحمل کا مظاہر کیا ، صبح ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم میں رات کو اپنی بیوی کے پاس آیا تو اس کے پاس ایک اجنبی آدمی کو پایا، میں نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات بڑی شاق گذری اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناگواری کا اظہار فرمایا انصار بھی اکٹھے اور کہنے لگے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے جو کہا تھا، ہم اسی میں مبتلا ہو گئے، اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہلال بن امیہ کو سزا دیں گے اور مسلمانوں میں ان کی گواہی کو ناقابل اعتبار قرار دے دیں گے، لیکن ہلال کہنے لگے کہ بخدا! مجھے امید ہے کہ اللہ میرے لئے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ ضرور بنائے گا، پھر ہلال کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! مجھے محسوس ہو رہاہے کہ میں نے جو مسئلہ آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے، وہ آپ پر شاق گذرا ہے، اللہ جانتا ہے کہ میں اپنی بات میں سچا ہوں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان پر سزا جاری کرنے کا حکم دینے والے ہی تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہوگیا اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ متغیر ہونے سے اسے پہچان لیتے تھے اور اپنے آپ کو روک لیتے تھے، تا آنکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سے فراغت ہوجاتی، چنانچہ اس موقع پر یہ آیت لعان نازل ہوئی کہ جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کا الزام لگائیں اور ان کے پاس سوائے ان کی اپنی ذات کے کوئی اور گواہ نہ ہو تو ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سے نزول وحی کی کیفیت ختم ہوئی تو فرمایا ہلال! تمہیں خوشخبری ہو کہ اللہ نے تمہارے لئے کشادگی اور نکلنے کا راستہ پیدا فرما دیا، انہوں نے عرض کیا کہ مجھے اپنے پروردگار سے یہی امید تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی بیوی کو بلاؤ، چنانچہ لوگ اسے بلا لائے، جب وہ آگئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے سامنے مذکورہ آیات کی تلاوت فرمائی اور انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ آخرت کا عذاب دنیا کی سزا سے زیادہ سخت ہے۔ ہلال کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم واللہ میں اس پر الزام لگانے میں سچا ہوں، جبکہ ان کی بیوی نے تکذیب کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان دونوں کے درمیان لعان کرا دو (جس کا طریقہ یہ ہے کہ) ہلال سے کہا گیا ہے کہ آپ گواہی دیجئے، انہوں نے چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ گواہی دی کہ وہ اپنے دعوی میں سچے ہیں، جب پانچیں مرتبہ کہنے کی باری آئی تو ان سے کہا گیا کہ ہلال اللہ سے ڈرو، دنیا کی سزا آخرت کی سزا سے ہلکی ہے اور یہ پانچویں مرتبہ کی قسم تم پر سزا کو ثابت کر سکتی ہے، انہوں نے کہا اللہ نے جس طرح مجھے کوڑے نہیں پڑھنے دیئے، وہ مجھے سزا بھی نہیں دے گا اور انہوں نے پانچویں مرتبہ یہ قسم کھا لی کہ اگر وہ جھوٹے ہوں تو ان پر اللہ کی لعنت ہو۔ پھر ان کی بیوی سے اسی طرح چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر اس بات پر گواہی دینے کے لئے کہا گیا کہ ان کا شوہر اپنے الزام میں جھوٹا ہے، جب پانچویں قسم کی باری آئی تو اس سے کہا گیا کہ اللہ سے ڈر، دنیا کی سزا آخرت کے عذاب کے مقابلے میں بہت ہلکی ہے اور یہ پانچویں مرتبہ کی قسم تجھ پر سزا بھی ثابت کر سکتی ہے، یہ سن کر وہ ایک لمحے کے لئے ہچکچائی، پھر کہنے لگی، واللہ میں اپنی قوم کو رسوا نہیں کروں گی اور پانچویں مرتبہ یہ قسم کھا لی کہ اگر اس کا شوہر سچا ہو تو بیوی پر اللہ کاغضب نازل ہو، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان تفریق کرا دی اور یہ فیصلہ فرما دیا کہ اس عورت کی اولاد کو باپ کی طرف منسوب نہ کیا جائے، نہ اس عورت کو اس کے شوہر کی طرف منسوب کیا جائے اور نہ اس کی اولاد پر کوئی تہمت لگائی جائے، جو شخص اس پر یا اس کی اولاد پر کوئی تہمت لگائے گا، اسے سزادی جائے گی، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ بھی فرمایا کہ اس عورت کی رہائش بھی اس کے شوہر کے ذمے نہیں ہے اور نان نفقہ بھی، کیونکہ ان دونوں کے درمیان طلاق یا وفات کے بغیرجدائی ہوئی تھی۔
اور فرمایا کہ اگر اس عورت کے یہاں پیدا ہونے والا بچہ سرخ و سفید رنگ کا ہو، ہلکے سرین اور پتلی پنڈلیوں والا ہو تو وہ ہلال کا ہوگا اور اگر گندمی رنگ کا ہو، گھنگھریالے بالوں والا، بھری ہوئی پنڈلیوں اور بھرے ہوئے سرین والا ہو تو یہ اس شخص کا ہوگا جس کی طرف اس عورت کو متہم کیا گیا ہے، چنانچہ اس عورت کے یہاں جو بچہ پیدا ہوا، اس کا رنگ گندمی، بال گھنگھریالے بھری ہوئی پنڈلیاں اور بھرے ہوئے سرین تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا تو فرمایا کہ اگر اس قسم کا پاس لحاظ نہ ہوتا تو میرا اور اس عورت کا معاملہ ہی دوسرا ہوتا، عکرمہ کہتے ہیں کہ بعد میں بڑا ہو کر وہ بچہ مصر کا گورنر بنا، لیکن اسے اس کی ماں کی طرف ہی منسوب کیا جاتا تھا ، باپ کی طرف نہیں
