حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مرویات
حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ حَدَّثَنِي شُرَيْحٌ يَعْنِي ابْنَ عُبَيْدٍ قَالَ ذُكِرَ أَهْلُ الشَّامِ عِنْدَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ بِالْعِرَاقِ فَقَالُوا الْعَنْهُمْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ لَا إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الْأَبْدَالُ يَكُونُونَ بِالشَّامِ وَهُمْ أَرْبَعُونَ رَجُلًا كُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ اللَّهُ مَكَانَهُ رَجُلًا يُسْقَى بِهِمْ الْغَيْثُ وَيُنْتَصَرُ بِهِمْ عَلَى الْأَعْدَاءِ وَيُصْرَفُ عَنْ أَهْلِ الشَّامِ بِهِمْ الْعَذَابُ
ابن عبید کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جس وقت عراق میں تھے، ان کے سامنے اہل شام کا تذکرہ ہوا، لوگوں نے کہا امیرالمومنین! ان کے لئے لعنت کی بد دعاء کیجئے، فرمایا نہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ابدال شام میں ہوتے ہیں، یہ کل چالیس آدمی ہوتے ہیں ، جب بھی ان میں سے کسی ایک کا انتقال ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی جگہ بدل کر کسی دوسرے کو مقرر فرما دیتے ہیں (اور اسی وجہ سے انہیں ابدال کہا جاتاہے) ان کی دعاء کی برکت سے بارش برستی ہے، ان ہی کی برکت سے دشمنوں پر فتح نصیب ہوتی ہے اور اہل شام سے ان ہی کی برکت سے عذاب کو ٹال دیا جاتا ہے۔
