حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مرویات
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ وَهُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا خَرَجْنَا مِنْ مَكَّةَ اتَّبَعَتْنَا ابْنَةُ حَمْزَةَ تُنَادِي يَا عَمِّ وَيَا عَمِّ قَالَ فَتَنَاوَلْتُهَا بِيَدِهَا فَدَفَعْتُهَا إِلَى فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقُلْتُ دُونَكِ ابْنَةَ عَمِّكِ قَالَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ اخْتَصَمْنَا فِيهَا أَنَا وَجَعْفَرٌ وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ فَقَالَ جَعْفَرٌ ابْنَةُ عَمِّي وَخَالَتُهَا عِنْدِي يَعْنِي أَسْمَاءَ بِنْتَ عُمَيْسٍ وَقَالَ زَيْدٌ ابْنَةُ أَخِي وَقُلْتُ أَنَا أَخَذْتُهَا وَهِيَ ابْنَةُ عَمِّي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا أَنْتَ يَا جَعْفَرُ فَأَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي وَأَمَّا أَنْتَ يَا عَلِيُّ فَمِنِّي وَأَنَا مِنْكَ وَأَمَّا أَنْتَ يَا زَيْدُ فَأَخُونَا وَمَوْلَانَا وَالْجَارِيَةُ عِنْدَ خَالَتِهَا فَإِنَّ الْخَالَةَ وَالِدَةٌ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا تَزَوَّجُهَا قَالَ إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنْ الرَّضَاعَةِ
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم مکہ مکرمہ سے نکلنے لگے تو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی چچا جان! چچاجان! پکارتی ہوئی ہمارے پیچھے لگ گئی، میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حوالے کردیا، اور ان سے کہا کہ اپنی چچا زاد بہن کو سنبھالو، جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تو اس بچی کی پرورش کے سلسلے میں میرا، حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا جھگڑا ہو گیا ۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کا موقف یہ تھا کہ یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ یعنی حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا میرے نکاح میں ہیں، لہٰذا اس کی پرورش میرا حق ہے، حضرت زید رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ یہ میری بھتیجی ہے اور میں نے یہ موقف اختیار کیا کہ اسے میں لے کر آیا ہوں اور یہ میرے چچا کی بیٹی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا جعفر! آپ تو صورت اور سیرت میں میرے مشابہہ ہیں، علی! آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہوں اور زید! آپ ہمارے بھائی اور ہمارے مولیٰ آزاد کردہ غلام ہیں، بچی اپنی خالہ کے پاس رہے گی کیونکہ خالہ بھی ماں کے مرتبہ میں ہوتی ہے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ اس سے نکاح کیوں نہیں کر لیتے؟ فرمایا اس لئے کہ یہ میری رضاعی بھتیجی ہے۔
