مسند احمد ۔ جلد اول ۔ حدیث 459

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مرویات

حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا زَائِدَةُ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ شَقِيقٍ قَالَ لَقِيَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ الْوَلِيدَ بْنَ عُقْبَةَ فَقَالَ لَهُ الْوَلِيدُ مَا لِي أَرَاكَ قَدْ جَفَوْتَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ أَبْلِغْهُ أَنِّي لَمْ أَفِرَّ يَوْمَ عَيْنَيْنِ قَالَ عَاصِمٌ يَقُولُ يَوْمَ أُحُدٍ وَلَمْ أَتَخَلَّفْ يَوْمَ بَدْرٍ وَلَمْ أَتْرُكْ سُنَّةَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ فَانْطَلَقَ فَخَبَّرَ ذَلِكَ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ فَقَالَ أَمَّا قَوْلُهُ إِنِّي لَمْ أَفِرَّ يَوْمَ عَيْنَيْنَ فَكَيْفَ يُعَيِّرُنِي بِذَنْبٍ وَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمْ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ وَأَمَّا قَوْلُهُ إِنِّي تَخَلَّفْتُ يَوْمَ بَدْرٍ فَإِنِّي كُنْتُ أُمَرِّضُ رُقَيَّةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ مَاتَتْ وَقَدْ ضَرَبَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَهْمِي وَمَنْ ضَرَبَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَهْمِهِ فَقَدْ شَهِدَ وَأَمَّا قَوْلُهُ إِنِّي لَمْ أَتْرُكْ سُنَّةَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَإِنِّي لَا أُطِيقُهَا وَلَا هُوَ فَأْتِهِ فَحَدِّثْهُ بِذَلِكَ

شقیق رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ولید بن عقبہ سے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی، ولید نے کہا کیا بات ہے، آپ امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ انصاف نہیں کر رہے؟ انہوں نے کہا کہ میری طرف سے انہیں یہ پیغام پہنچا دو کہ میں غزوہ احد کے دن فرار نہیں ہوا تھا، میں غزوہ بدر سے پیچھے نہیں رہا تھا اور نہ ہی میں نے حضرت عمر رضی اللہ کی سنت کو چھوڑا ہے، ولید نے جاکر یہ ساری بات حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بتادی۔ انہوں نے فرمایا کہ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے یہ جو کہا کہ میں غزوہ احد سے فرار نہیں ہوا تھا، وہ مجھے ایسی لغزش سے کیسے عار دلا سکتے ہیں جسے اللہ نے خود معاف کر دیا، چنانچہ ارشادباری تعالیٰ ہے کہ تم میں سے جو لوگ دو لشکروں کے ملنے کے دن پیٹھ پھیر کر چلے گئے تھے، انہیں شیطان نے پھسلا دیا تھا بعض ان چیزوں کی وجہ سے جو انہوں نے کیں اور غزوہ بدر سے پیچھے رہ جانے کا جو طعنہ انہوں نے مجھے دیا ہے تو اصل بات یہ ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی اور اپنی زوجہ حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تیمارداری میں مصروف تھا، یہاں تک کہ وہ اسی دوران فوت ہوگئیں ، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکاء بدر کے ساتھ مال غنیمت میں میرا حصہ بھی شامل فرمایا اور یہ سمجھا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کا حصہ مقرر فرمایا وہ غزوہ بدر میں شریک تھا رہی ان کی یہ بات کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنت نہیں چھوڑی تو سچی بات یہ ہے کہ اس کی طاقت مجھ میں ہے اور نہ خود ان میں ہے تم جا کر ان سے یہ باتیں بیان کر دینا۔

یہ حدیث شیئر کریں