حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مرویات
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ وَاللَّهِ إِنَّا لَمَعَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ بِالْجُحْفَةِ وَمَعَهُ رَهْطٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ فِيهِمْ حَبِيبُ بْنُ مَسْلَمَةَ الْفِهْرِيُّ إِذْ قَالَ عُثْمَانُ وَذُكِرَ لَهُ التَّمَتُّعُ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ إِنَّ أَتَمَّ لِلْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ أَنْ لَا يَكُونَا فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ فَلَوْ أَخَّرْتُمْ هَذِهِ الْعُمْرَةَ حَتَّى تَزُورُوا هَذَا الْبَيْتَ زَوْرَتَيْنِ كَانَ أَفْضَلَ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدْ وَسَّعَ فِي الْخَيْرِ وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي بَطْنِ الْوَادِي يَعْلِفُ بَعِيرًا لَهُ قَالَ فَبَلَغَهُ الَّذِي قَالَ عُثْمَانُ فَأَقْبَلَ حَتَّى وَقَفَ عَلَى عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ أَعَمَدْتَ إِلَى سُنَّةٍ سَنَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرُخْصَةٍ رَخَّصَ اللَّهُ تَعَالَى بِهَا لِلْعِبَادِ فِي كِتَابِهِ تُضَيِّقُ عَلَيْهِمْ فِيهَا وَتَنْهَى عَنْهَا وَقَدْ كَانَتْ لِذِي الْحَاجَةِ وَلِنَائِي الدَّارِ ثُمَّ أَهَلَّ بِحَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ مَعًا فَأَقْبَلَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ وَهَلْ نَهَيْتُ عَنْهَا إِنِّي لَمْ أَنْهَ عَنْهَا إِنَّمَا كَانَ رَأْيًا أَشَرْتُ بِهِ فَمَنْ شَاءَ أَخَذَ بِهِ وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بخدا! ہم اس وقت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مقام جحفہ میں تھے جب کہ ان کے پاس اہل شام کا ایک وفد آیا تھا ان میں حبیب بن مسلمہ فہری بھی تھے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے سامنے حج تمتع کا ذکر چھڑا تو انہوں نے فرمایا حج اور عمرہ کا اتمام یہ ہے کہ ان دونوں کو اشہر حج میں اکٹھا نہ کیا جائے اگر تم اپنے عمرہ کو مؤخر کر دو اور بیت اللہ کی دو مرتبہ زیارت کرو تو یہ زیادہ افضل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نیکی کے کاموں میں وسعت اور کشادگی رکھی ہے۔ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ بطن وادی میں اپنے اونٹ کو چارہ کھلا رہے تھے، انہیں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی یہ بات معلوم ہوئی تو وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ کیا آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت کا اور اللہ کی اس رخصت کو جو اس نے قرآن میں اپنے بندوں کو دی ہے، لوگوں کو اس سے روک کر انہیں تنگی میں مبتلا کریں گے؟ حالانکہ ضرورت مند آدمی کے لئے اور اس شخص کے لئے جس کا گھر دور ہو، یہ حکم یعنی حج تمتع کا اب بھی باقی ہے۔ یہ کہہ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا (تاکہ لوگوں پر اس کاجواز واضح ہوجائے) اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے سامنے آکر ان سے پوچھا کہ کیا میں نے حج تمتع سے منع کیا ہے؟ میں نے تو اس سے منع نہیں کیا، یہ تو ایک رائے تھی جس کا میں نے مشورہ دیا تھا ، جو چاہے قبول کرے اور جو چاہے چھوڑ دے۔
