مسند احمد ۔ جلد دوم ۔ حدیث 2345

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مرویات

حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ بَيْنَمَا رَجُلٌ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانَ فِي مَمْلَكَتِهِ فَتَفَكَّرَ فَعَلِمَ أَنَّ ذَلِكَ مُنْقَطِعٌ عَنْهُ وَأَنَّ مَا هُوَ فِيهِ قَدْ شَغَلَهُ عَنْ عِبَادَةِ رَبِّهِ فَتَسَرَّبَ فَانْسَابَ ذَاتَ لَيْلَةٍ مِنْ قَصْرِهِ فَأَصْبَحَ فِي مَمْلَكَةِ غَيْرِهِ وَأَتَى سَاحِلَ الْبَحْرِ وَكَانَ بِهِ يَضْرِبُ اللَّبِنَ بِالْأَجْرِ فَيَأْكُلُ وَيَتَصَدَّقُ بِالْفَضْلِ فَلَمْ يَزَلْ كَذَلِكَ حَتَّى رَقِيَ أَمْرُهُ إِلَى مَلِكِهِمْ وَعِبَادَتُهُ وَفَضْلُهُ فَأَرْسَلَ مَلِكُهُمْ إِلَيْهِ أَنْ يَأْتِيَهُ فَأَبَى أَنْ يَأْتِيَهُ فَأَعَادَ ثُمَّ أَعَادَ إِلَيْهِ فَأَبَى أَنْ يَأْتِيَهُ وَقَالَ مَا لَهُ وَمَا لِي قَالَ فَرَكِبَ الْمَلِكُ فَلَمَّا رَآهُ الرَّجُلُ وَلَّى هَارِبًا فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ الْمَلِكُ رَكَضَ فِي أَثَرِهِ فَلَمْ يُدْرِكْهُ قَالَ فَنَادَاهُ يَا عَبْدَ اللَّهِ إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ مِنِّي بَأْسٌ فَأَقَامَ حَتَّى أَدْرَكَهُ فَقَالَ لَهُ مَنْ أَنْتَ رَحِمَكَ اللَّهُ قَالَ أَنَا فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ صَاحِبُ مُلْكِ كَذَا وَكَذَا تَفَكَّرْتُ فِي أَمْرِي فَعَلِمْتُ أَنَّ مَا أَنَا فِيهِ مُنْقَطِعٌ فَإِنَّهُ قَدْ شَغَلَنِي عَنْ عِبَادَةِ رَبِّي فَتَرَكْتُهُ وَجِئْتُ هَاهُنَا أَعْبُدُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فَقَالَ مَا أَنْتَ بِأَحْوَجَ إِلَى مَا صَنَعْتَ مِنِّي قَالَ ثُمَّ نَزَلَ عَنْ دَابَّتِهِ فَسَيَّبَهَا ثُمَّ تَبِعَهُ فَكَانَا جَمِيعًا يَعْبُدَانِ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَدَعَوَا اللَّهَ أَنْ يُمِيتَهُمَا جَمِيعًا قَالَ فَمَاتَا قَالَ لَوْ كُنْتُ بِرُمَيْلَةِ مِصْرَ لَأَرَيْتُكُمْ قُبُورَهُمَا بِالنَّعْتِ الَّذِي نَعَتَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ گذشتہ امتوں میں تم سے پہلے ایک بادشاہ گذرا ہے جو اپنی مملکت میں رہا کرتا تھا، ایک دن وہ غوروفکر کر رہا تھا تو اسے یہ بات سمجھ آئی کہ اس کی حکومت ایک نہ ایک دن ختم ہوجائے گی اور وہ جن کاموں میں الجھا ہوا ہے ان کی وجہ سے وہ اپنے رب کی عبادت کرنے سے محروم ہے، یہ سوچ کر ایک دن رات کے وقت وہ چپکے سے اپنے محل سے نکلا اور دوسرے ملک چلا گیا ، وہاں سمندر کے کنارے رہائش اختیار کرلی اور اپنا معمول یہ بنا لیا کہ اینٹیں ڈھوتا، جو مزدوری حاصل ہوتی، اس میں سے کچھ سے کھانے کا انتظام کر لیتا اور باقی سب اللہ کی راہ میں صدقہ کر دیتا، وہ اپنے اس معمول پر ثابت قدمی سے عمل کرتا رہا، یہاں تک کہ ہوتے ہوتے یہ خبر اس ملک کے بادشاہ کو ہوئی، اس کی عبادت اور فضیلت کا حال بھی اسے معلوم ہوا تو اس ملک کے بادشاہ نے اسے اپنے پاس بلا بھیجا، لیکن اس نے جانے سے انکار کر دیا، بادشاہ نے دوبارہ اس کو پیغام بھیجا لیکن اس نے پھر انکار کر دیا اور کہنے لگا کہ بادشاہ کو مجھ سے کیا کام؟ بادشاہ کو پتہ چلا تو وہ اپنی سواری پر سوار ہو کر اس کی طرف روانہ ہوا، جب اس شخص نے بادشاہ کو دیکھا تو بھاگنے لگا، بادشاہ نے یہ دیکھ کر اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا لیکن اسے نہ پاسکا،، بالآخر اس نے دور ہی سے اسے آواز دی کہ اے بندہ خدا! آپ کو مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں (میں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا) چنانچہ وہ اپنی جگہ کھڑا ہوگیا اور بادشاہ اس کے پاس پہنچ گیا، بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ اللہ آپ پر رحم فرمائے، آپ کون ہیں ؟ اس نے کہا کہ میں فلاں بن فلاں ہوں ، فلاں ملک کا بادشاہ تھا، میں نے اپنے متعلق ایک مرتبہ غوروفکر کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میری حکومت تو ایک نہ ایک دن ختم ہوجائے گی اور اس حکومت کی وجہ سے میں اپنے رب کی عبادت سے محروم ہوں ، اس لئے میں اپنی حکومت چھوڑ چھاڑ کر یہاں آگیا ہوں تاکہ اپنے رب کی عبادت کر سکوں ۔ وہ بادشاہ کہنے لگا کہ آپ نے جو کچھ کیا، مجھے تو اس سے بھی زیادہ ایسا کرنے کی ضرورت ہے، چنانچہ وہ اپنی سواری سے اترا اسے جنگل میں چھوڑا اور اس کی اتباع اختیار کرلی، اور وہ دونوں اکٹھے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے لگے، ان دونوں نے اللہ سے یہ دعاء کی تھی کہ ان دونوں کو موت اکٹھی آئے، چنانچہ ایسے ہی ہوا، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر میں مصر کے اس چھوٹے سے ٹیلے پر ہوتا تو تمہیں ان دونوں کی قبریں دکھاتا جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے اس کی علامات ذکر فرمائی تھیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں