عبداللہ بن عباس کی مرویات
حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ الْعِجْلِيُّ وَكَانَتْ لَهُ هَيْئَةٌ رَأَيْنَاهُ عِنْدَ حَسَنٍ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ شِهَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَقْبَلَتْ يَهُودُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا يَا أَبَا الْقَاسِمِ إِنَّا نَسْأَلُكَ عَنْ خَمْسَةِ أَشْيَاءَ فَإِنْ أَنْبَأْتَنَا بِهِنَّ عَرَفْنَا أَنَّكَ نَبِيٌّ وَاتَّبَعْنَاكَ فَأَخَذَ عَلَيْهِمْ مَا أَخَذَ إِسْرَائِيلُ عَلَى بَنِيهِ إِذْ قَالُوا اللَّهُ عَلَى مَا نَقُولُ وَكِيلٌ قَالَ هَاتُوا قَالُوا أَخْبِرْنَا عَنْ عَلَامَةِ النَّبِيِّ قَالَ تَنَامُ عَيْنَاهُ وَلَا يَنَامُ قَلْبُهُ قَالُوا أَخْبِرْنَا كَيْفَ تُؤَنِّثُ الْمَرْأَةُ وَكَيْفَ تُذْكِرُ قَالَ يَلْتَقِي الْمَاءَانِ فَإِذَا عَلَا مَاءُ الرَّجُلِ مَاءَ الْمَرْأَةِ أَذْكَرَتْ وَإِذَا عَلَا مَاءُ الْمَرْأَةِ آنَثَتْ قَالُوا أَخْبِرْنَا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَى نَفْسِهِ قَالَ كَانَ يَشْتَكِي عِرْقَ النَّسَا فَلَمْ يَجِدْ شَيْئًا يُلَائِمُهُ إِلَّا أَلْبَانَ كَذَا وَكَذَا قَالَ عَبْد اللَّهِ بْن أَحْمَد قَالَ أَبِي قَالَ بَعْضُهُمْ يَعْنِي الْإِبِلَ فَحَرَّمَ لُحُومَهَا قَالُوا صَدَقْتَ قَالُوا أَخْبِرْنَا مَا هَذَا الرَّعْدُ قَالَ مَلَكٌ مِنْ مَلَائِكَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مُوَكَّلٌ بِالسَّحَابِ بِيَدِهِ أَوْ فِي يَدِهِ مِخْرَاقٌ مِنْ نَارٍ يَزْجُرُ بِهِ السَّحَابَ يَسُوقُهُ حَيْثُ أَمَرَ اللَّهُ قَالُوا فَمَا هَذَا الصَّوْتُ الَّذِي يُسْمَعُ قَالَ صَوْتُهُ قَالُوا صَدَقْتَ إِنَّمَا بَقِيَتْ وَاحِدَةٌ وَهِيَ الَّتِي نُبَايِعُكَ إِنْ أَخْبَرْتَنَا بِهَا فَإِنَّهُ لَيْسَ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا لَهُ مَلَكٌ يَأْتِيهِ بِالْخَبَرِ فَأَخْبِرْنَا مَنْ صَاحِبكَ قَالَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام قَالُوا جِبْرِيلُ ذَاكَ الَّذِي يَنْزِلُ بِالْحَرْبِ وَالْقِتَالِ وَالْعَذَابِ عَدُوُّنَا لَوْ قُلْتَ مِيكَائِيلَ الَّذِي يَنْزِلُ بِالرَّحْمَةِ وَالنَّبَاتِ وَالْقَطْرِ لَكَانَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ إِلَى آخِرِ الْآيَةَ
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مرتبہ کچھ یہودی آئے اور کہنے لگے کہ اے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ سے پانچ سوالات پوچھنا چاہتے ہیں، اگر آپ نے ہمیں ان کا جواب دے دیا تو ہم سمجھ جائیں گے کہ آپ واقعی نبی ہیں اور ہم آپ کی اتباع کرنے لگیں گے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سے اس بات پر وعدہ لیا جیسے حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے لیا تھا ، جب وہ یہ کہہ چکے کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں ، اللہ اس پر وکیل ہے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب اپنے سوالات پیش کرو، انہوں نے پہلا سوال یہ پوچھا کہ نبی کی علامت کیا ہوتی ہے؟ نبی صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی آنکھیں تو سوتی ہیں لیکن اس کا دل نہیں سوتا۔ انہوں نے دوسرا سوال یہ پوچھا کہ یہ بتائیے کہ بچہ مؤنث اور مذکر کس طح بنتا ہے؟ فرمایا دو پانی ملتے ہیں، اگر مرد کا پانی عورت کے پانی پر غالب آجائے تو بچہ مذکر ہوجاتا ہے اور اگر عورت کا پانی مرد کے پانی پر غالب آجائے تو بچی پیدا ہوتی ہے، انہوں نے تیسرا سوال پوچھا کہ یہ بتائیے، حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے اوپر کس چیز کو حرام کیا تھا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں عرق النساء نامی مرض کی شکایت تھی، انہوں نے محسوس کیا کہ انہیں اونٹ کا دودھ سب سے زیادہ پسند ہے اس لئے انہوں نے اس کے (دودھ اور) گوشت کو اپنے اوپر حرام کرلیا، وہ کہنے لگے کہ آپ نے سچ فرمایا۔ پھر انہوں نے چوتھا سوال یہ پوچھا کہ یہ رعد (بادلوں کی گرج چمک) کیا چیز ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اللہ کے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے، جسے بادلوں پر مقرر کیا گیا ہے، اس کے ہاتھ میں لو ہے کا ایک گرز ہوتا ہے جس سے یہ بادلوں کو مارتا ہے اور اللہ نے جہاں لے جانے کا حکم دیا ہوتا ہے انہیں وہاں تک لے کر جاتا ہے ، وہ کہنے لگے کہ ہم جو آواز سنتے ہیں وہ کہاں سے آتی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اس کی آواز ہوتی ہے، انہوں نے اس پر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی اور کہنے لگے کہ اب ایک سوال باقی رہ گیا ہے، اگر آپ نے اس کا جواب دے دیا تو ہم آپ کی بیعت کر لیں گے، ہر نبی کے ساتھ ایک فرشتا ہوتا ہے جو ان کے پاس وحی لے کر آتا ہے، آپ کے پاس کون سا فرشتہ آتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبرئیل! وہ کہنے لگے کہ وہی جبرئیل جو جنگ لڑائی اور سزا لے کرآ تا ہے، وہ تو ہمارا دشمن ہے، اگر آپ میکائیل کا نام لیتے جو رحمت، نباتات اور بارش لے کر آتا ہے تب بات بن جاتی، اس پر اللہ تعالیٰ نے سورت بقرہ کی یہ آیت نازل فرمائی قل من کان عدالجبرئیل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
